چشمِ فلک نے کیا کیا دیکھا
ایوانوں میں بلند ہوتی آواز میرے کانوں میں گونجتی کئی سوالات اٹھا رہی ہے کہ باپ کے سامنے گرفتار بیٹی اور بیٹی کے سامنے گرفتار باپ ایک جاں گداز منظر تھا جو چشمِ فلک نے دیکھا – بات شاید شاہوں کی ہو رہی تھی ورنہ میں تو روز ایسے واقعات پڑھتا اور سنتا ہوں کہ جہاں حوا کی بیٹی سب کے سامنے آئے دن ذلیل و رسوا کر دی جاتی ہے اور پھر انصاف کے لئے بوڑھے ماں باپ کے ساتھ کبھی اس ڈگر کبھی اس ڈگر – کبھی اس نگر کبھی اس نگرماری ماری پھرتی ہے- جب حکمرانوں کے در پہ بھی رسائی یا شنوائی نہیں ہوتی تو بھرے مجمع میں خود کو آگ لگا کے ربِ ذوالجلال کا انصاف ڈھونڈتی ہے- مجھے تو ماڈل ٹاؤں واقعہ کی بچی ابھی تک نہیں بھولی جس کے سامنے اس کی ماں کے منہ میں گولی ماری گئی تھی اور بیٹی کے سامنے ایک حاملہ ماں کسی کودنیا میں لانے سے پہلے ہی کوکھ میں لئے ملکِ عدم سدھاری تھی – ہاں وہی ماں جس کی ایف آئی آر کٹوانے کے لئے دھرنے دیے گئے تھے – چند اور جانوں کے نذرانے پیش کئے گئے تھے اور پھر ملکی اداروں کے کہنے پہ پرچہ تو درج ہوا تھا لیکن جس جس کا نام اس میں تھا سب نے ترقیاں پائیں تھی کہ شاید ظلم و ستم کے سجے میدان میں دکھائی گئی بزدلی ہی وہ دلیری تھی جو حکمِ حاکم پہ سرفراز کرتی ہے- پنجاب میں بیان کی گئیں ترقی کی باتیں اور صاف پانی گو کہ آپ کی زبان سے ادا ہوئے وہ کارنامے ہیں کہ جس کی ایک بھی بوند سے کوئی مستفید نہ ہوا اور چار ارب روپے کام آئے- ہاں وہی پنجاب جس میں آج بھی آپ کی رعایا صاف تو کیا فقط پانی کو ترستی ہے اور خدائے عز و جل کی طرف سے ہوتی بارشوں کے سہارے زندگی بسر کر رہی ہے- جی وہی جنوبی پنجاب جس میں جانور اور انسان ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے اسے آج تک آپ کا حکم سمجھتے ہوئے نہایت عاجزی سے بجا لاتے رہے ہیں – یہ منظر نہ تو آپ کے لئے جاں گداز تھا اور نہ ہی شایدچشمِ فلک کے لئے اس لئے تو کی گئی چشم پوشی نے آپ کو شفاف طریقوں سے اورنج ٹرین کے ایسے منصوبے دیے کہ سینکڑوں ارب خرچ آئے اور آپ کے سوا کوئی بھی آج تک اس پہ سوار ہو کے تیزی سے پیچھے دوڑتے گذرتے مناظر میں ہاتھ ہلا ہلا کے لطف اندوزنہ ہو سکا- بات ہوئی نیب میں سہولیات کی تو صاحب یہی کچھ آپ نے اس غریب عوام کو دیا ہے سو آپ بھی انہی سہولتوں سے جی بھر کے فائدہ اٹھائیں- بات چشمِ فلک کی ہے تو شاید اس دن وہ بھی روئی تھی لیکن آپ کو نظر نہیں آئی کہ جس دن نابینا اور معذور آپ کے دارلحکومت میں ڈنڈے سوٹے کھاتے سارا دن آپ کی قوت کے مظاہرے کے سامنے بھاگ رہے تھے – چشمِ فلک تو اس دن بھی آبدیدہ تھی جس دن آپ ایک مظلوم باپ کے سامنے قہقہے لگاتے اپنے کارناموں پہ اپنی سپاہ کے ساتھ مسرتیں بکھیر رہے تھے- چشمِ فلک تو اس دن بھی بہت روئی تھی جس دن غربتیں تیس ہزار ارب روپے کے قرضوں تلے دبی بلک رہیں تھی – باپ گلے کاٹتے ، دودھ میں زہر ملاتے اور مائیں نہروں میں جان دینے کو چھلانگیں لگاتیں اپنی ممتا کے فرض سے سبکدوش ہوئی جاتیں تھی – چشم ِفلک تو اس دن بھی مغموم تھی جس دن دانش سکولوں کے سکینڈلز باہر آ رہے تھے اور چھپن کمپنیوں سے بنایا گیا مال اندر جا رہا تھا- چشمِ فلک کی غمگینی تو ان دنوں بھی عروج پہ تھی جن دنوں ثبوتوں کو نذرِ آتش کرکے اس عوام کے اصل مجرموں کو سہولت کاری فراہم کی جارہی تھی – آپ نے ایک میثاق پہ دستخط کرکے جب احتساب کو فوٹو کاپیاں مہیا کی تھیں اس دن بھی عوام کے ساتھ ساتھ چشمِ فلک بھی مسوسی ہوئی تھی- اگر یاد آئے تو جب آپ پاکستانی طیاروں کو اپنی جاگیر سمجھ کے ہر علاج کے لئے لندن اور امریکہ کا رخ کرتے تھے تو اس قوم کی بچیاں شاہراہوں اور بیت الخلائ کی دیواروں کی اوٹ میں بچے جن رہی تھیں اس دن بھی چشمِ فلک دل پہ ہاتھ رکھ کے کھڑی تھی – کیا آپ کے دورِ حکومت میں ایک وزیرِ خزانہ وزیرِ اعظم کے جہاز پہ بیرونِ ملک سدھارا اور آج تک نہ لوٹا کیا نام دیں ہم اس دوستی اور رشتہ داری کو- اسلام آباد ائرپورٹ جب ٹپکتی ہے اور کبھی اس کے ساتھ لگنے والے مسافر پل گرتے ہیں تو یقین مانئیے اس دن بھی چشمِ فلک پہ چھائے مناظر بین کر رہے ہوتے ہیں- آپ کے تعمیر کئے گئے سریے اور سیمنٹ کے گواہ کیوں آپ کے لئے گواہی دینے نہیں اٹھتے – کیوں آپ کے لئے عام عوام آواز نہیں اٹھاتی کیونکہ کبھی اس پہ بھی توجہ دی ہوتی تو آج وہ آپ کو مسیحا مانتی جان دیتی - عوام سمجھ گئی ہے اور کسی نئے فریب کے جال میں پھنسنے سے پہلے خوب سوچتی ہے- تحریکِ انصاف کی ضمنی انتخابات میں ناکامی اس کا بین ثبوت ہے کہ جس میں حلقے کی عام عوام نے پرانے مہروں کو سر پہ بٹھانے سے انکار کر دیا ہے- اب جب کہ انسانی آنکھوں کی پٹیاں کھل رہی ہیں تو چشمِ فلک سے گواہی کیوں- کہیے کہ یہ عوام جن کی خدمت میں آپ نے خون پسینہ بہایا ہے آپ کو اس سنگھاسن پہ بٹھائیں جس کے آپ حقدار ہیں- صاحب احتساب ہمیشہ ہی اس قوم کا ہوا ہے کبھی سائیکل چوری پہ تو کبھی دھنیہ چوری پہ – اس ملک کی جیلیں چند سو سے چند ہزار روپے کے نا دہندگان سے بھری ہوئی ہیں- یہاں پہ انصاف موت کے بعد ملتا ہے اور آپ کو اپنے مقدمات تیزی سے چلنے پہ بھی اعتراض ہے – انصاف کے ان احتسابی اداروں پہ اگر آج آپ سوال اٹھا رہے تھے تو یہ آپ کے ہی بنائے ہوئے ہیں جن سے آپ کی عوام گذری ہے اور گذرتی ہے- آپ بھی گذر جائیے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ محمود و ایاز کی ایک ہی صف جب آپ کا نعرہ ہے تو پھر تکلف کیسا – دے دیجیئے ہر سوال کا جواب ثبوت کے ساتھ اور اسی چشمِ فلک کو شادمانی سے منور کر دیجیئے جو آج بقول آپ کے اس نا انصافی پہ رنجیدہ ہے-