سیکولر بھارت اور ہندو عدالت ؟
بھارت کی بنیاد پرست تنظیم ہندو مہا سبھا نے شریعت عدالت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے معاملات کو ہندو دھرم کی بنیادی تعلیمات کی روشنی میں طے کرنے کیلئے ملک کی پہلی ہندو عدالت قائم کردی ہے۔یعنی میرٹھ میں آ ل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی دار القضاء کی طرز پر ہندو کورٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کی سیکریٹری جنرل پوجا شکن پانڈے کو ہندو عدالت کی پہلی جج مقرر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے تقریب میرٹھ کے شاردا روڈ پر واقع مرکزی دفتر میں منعقد ہوئی۔ مہا سبھا کے نائب صدر پنڈت اشوک شرما نے کہا کہ ہم نے چند برس قبل شریعت کورٹ کے قیام پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا کیونکہ ملک میں ایک آئین کے تحت ایک ہی قسم کی عدالتیں ہونی چاہئیں۔ جب کوئی کارروائی نہ کی گئی تو ہم نے بھی ہندو کورٹ قائم کردی ہے۔ ہم نے حکومت کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں دار القضا کو چیلنج کیا گیا تھا۔ مطالبہ کیا تھا کہ تمام لوگوں کے لئے ایک قانون ہونا چاہئے۔ہم نے خط میں کہا تھا کہ اگر ہمارے مطالبا ت تسلیم نہ کئے گئے توہم اس طرز کی ہندووں کیلئے بھی کورٹ قائم کر ینگے تاہم اب تک اس سلسلہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ، جس کی وجہ سے ہم پہلے ہندو کورٹ کا قیام عمل میں لا رہے ہیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قائد اور رکن شوریٰ جماعت اسلامی ہند ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لا کے خلاف مختلف گوشوں سے چلائی جارہی مہم کا مثبت انداز میں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے دستور نے ہر مذہب کے ماننے والے کو جو آزادی دی ہے اس میں مسلم پرسنل لا بھی شامل ہے لہذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ موثر حکمت عملی کے ساتھ ان چیلنجز کا مقابلہ کریں۔
مسلم پرسنل لا اور اسلامی شریعت کو فی الوقت قانون ساز اداروں جیسے پارلیمنٹ اور اسمبلی کے علاوہ عدلیہ اور بعض سیاسی جماعتوں سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ مسلمان اگر اپنے مسائل کے حل کیلئے شرعی عدالتوں اور دارالقضات سے رجوع کریں تو کسی بھی سرکاری ادارہ کو شریعت میں مداخلت کا موقع نہیں ملے گا۔ وہ طاقتیں جن کے ہاتھ میں حکومت ہے ان کے ایجنڈہ میں یکساں سیول کوڈکا نفاذ شامل ہے۔یہاں گرو گولوالکر کی کتاب ’’ بنچ آف تھاٹ ‘‘ کا حوالہ یاد رکھاجائے جس میں انہوں نے ہندوستان جیسے ہمہ مذہبی، ہمہ لسانی اور ہمہ تہذیبی ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کو ناممکن قرار دیا تھا۔
بھارت میں رائج قوانین کی دو قسمیں ہیں۔ ایک سول کوڈ اور دوسرا کریمنل کوڈ یہ قوانین ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں ہیں۔ ان میں کسی بھی نوعیت کی تفریق نہیں ہے۔ اس میں پہلی قسم ’ سول کوڈ‘ کے دائرے میں ہے ، جس میں وہ تمام قوانین شامل ہیں جن کا تعلق معاشرتی، تمدنی، معاملاتی امور سے ہے۔ دوسری قسم جرائم سے متعلق ہے۔ البتہ سول کوڈ کا ایک حصہ وہ ہے ، جسے پرسنل لا بھی کہا جاتا ہے۔ ملک میں بعض اقلیتوں کو، جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، ان کے مذہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ مذہبی قوانین پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ اسے ’ مسلم پرسنل لا‘ کا نام دیا گیا ہے۔اسی قانون کے تحت دستور میں مسلمانوں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر نکاح، طلاق، خلع، فسق نکاح، وراثت، وقف وغیرہ سے متعلق مقدمات سر کاری عدالتوں میں دائر کیے جائیں گے اور اگر دونوں فریق مسلمان ہوں گے ، تو سرکار ی عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ کریں گی۔
حکومت اور سیکولر فکر رکھنے والوں کی اس ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی وکالت بہت پرانی ہے۔ہندوستانی دستور کے مرتب کرتے وقت ہی یکساں سول کوڈ کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ دستور ہند میں ہندوستان میں رہنے والے شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے۔ اسی بنا پر ہندووں نے علیحدہ عدالت بنائی ہے کہ یکساں سول کوڈ میں ان کے مقدمات کی درست تشریح نہیں ہو رہی اور وہ عدالتی فیصلوں سے مطمعن نہیں ۔ جبکہ مسلمانوں کو علیحدہ سول کوڈ کی سہولت حاصل ہے۔ وہ ایسا عدالتی نظام چاہتے تھے جس میں تمام فیصلے ان کے مذہب اور قوانین کے مطابق ہوں۔
نریندر مودی ایک سیکولر ریاست کے وزیر اعظم ہیں لیکن ان کا سیکولر ازم کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرنا حیرت ناک ہے حقیقت تو یہ ہے کہ بھارتی بنیاد پرست ذہنیت رکھنے والے لوگ اب سیکولرازم کے مد مقابل بھارت میںکسی نئے نظام کو پروان چڑھا رہے ہیں اور انہوں نے سیکولرازم کو اب مسلم انتہا پسندی کے مقابل لا کھڑا کیا ہے کیونکہ اب بھارت میں جو بھی سیکولرازم کی بات کرتا ہے اسے مسلمانوں کا طرف دار قرار دے دیا جاتا ہے بلکہ اب توسیکولرازم کے ماننے والوں کو مسلمانوں کا ہم نوا قرار دے کر بھارت میں فرقہ واریت کو بھی ہوا دی جا رہی ہے ہندو قوم پرست ہندو ازم کو بچانے کی آڑ میں لوگوں کے بنیادی حقوق کو بھی داؤ پر لگا رہے ہیں اور اب بھارت کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ جو شخص بنیادی حقوق کی بات کرتا ہے اس کے خلاف انتہا پسند ہندو پنڈت انتہا پسند ہونے کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں۔