ہمارا نظام کرپشن کو کیسے فروغ دیتا ہے
یہ کتنا برا تضاد ہے کہ پاکستان باوجود ایک زرعی ملک ہونے کے غذائی قلت کا شکار ہے اورباوجود پانچ بڑے دریاؤں کا ملک ہونے کے آبی قلت سے دوچار ہے۔ پانی سمیت دیگر وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود اسے توانائی کی کمی کا سامنا ہے اور باوجود قدرتی وسائل کی فراوانی کے ملک میں وسائل کی بد بختی یا Resource curse کی صورتحال ہے۔ پاکستان میں پیداوار کی شرح نمو بہت کم ہو گئی ہے جبکہ دولت اور آمدنی کی تقسیم بہت ناہموار ہو چکی ہے اور غربت میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ ملک کے ادارے ذاتی مفادات کے لئے استعمال ہو رہے ہیں اور وہ سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ جن کے لئے یہ وجود میں لائے گئے تھے۔ ہمارے قدرتی وسائل بیرونی ملکوں کو بلا معاوضہ دئے جا رہے ہیں اور ہماری شاہراہیں اور سڑکیں کوڑیوں کے عوض بڑی طاقت کو فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر پاکستان کو اور اس کی عوام کو اس دولت اور آمدنی سے محروم کیاجا تا رہا ہے جو ہم ان ذرائع سے کما سکتے تھے۔ ان عوامل کے نتیجے میں عوام میں احساس محرومی ‘ شورشیں‘ سہولیات کا فقدان بدامنی اور حکومتی نااہلی کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ مزید ہم پر ایک جنگ مسلط کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے مالی اور جانی نقصان بہت ہوا ہے اور مسلسل جاری ہے۔ مغربی ملکوں کی بیج بنانے والی کمپنیاں اور USAID پاکستان میں جنیاتی بیج متعارف کرانے میں آج بھی سرگرم عمل ہے جس کی وجہ سے ہماری زرعی پیداوار زہر آلود ہو رہی ہے۔پیداوار میں نمایاں کمی ہو رہی ہے اور ہماری معیشت پر اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جب ہمارے کسان جنیاتی بیج مہنگے ہونے کے سبب نہیں استعمال کرتے تو USIAD خود شکار پور کے علاقے میں آلو کے جنیاتی بیج استعمال کر کے ہماری کاشت کو آلودہ کر رہی ہے۔ کوئٹہ میں بھی یو ایس ایڈ نے ایک این جی او کے ساتھ مل کر جنیاتی سیب کے پودے مفت میں بانٹے تھے اور بلوچستان کے پھلوں اور سبزیوں کی کاشت کو آلودہ کرنے میں اپنا رول ادا کیا تھا۔
میں اس وقت یہ نشاندہی کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں پچھلے برسوں میں سرطان‘ فالج اور شوگر جیسے مہلک امراض بہت بڑھ چکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان ان تمام نعمتوں اور خداداد صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود اس پست حالی کا شکار کیوں ہے؟ اس صورتحال کی بنیادی وجہ پاکستان کا نظام ہے۔ اس نظام کے تحت وہ تمام پاکستانی جن کے امریکہ اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات ہیں وہ اپنا ایک جال تیار کر لیتے ہیں اور حکومت پاکستان کے اوپر ایک ’’سپرانیشنل‘‘ حکومت قائم کر دیتے ہیں۔ اس نیٹ ورک کے لوگوں کو وزارتی اداروں کے سربراہ گورنر وغیرہ تعینات کیا جاتا ہے۔ ان عہدوں پر تعینات ہونے میں ان کی تعلیم اور قابلیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کہیں بیٹی باپ کے بنائے ادارے کی وارث ہوتی ہے تو کہیںProteges اس میراث کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں میں بھی شیخ الجامعات‘ ڈائریکٹرز‘ ڈپارٹمنٹ کے چیئرپرسن‘ رجسٹرار کی تعیناتی اسی نیٹ ورک کے لوگوں سے ہوتی ہے ۔ اس طرح قابل اور باصلاحیت اساتذہ کا رول تعلیمی معاملات میں ختم کیا جاتا ہے اور نااہل اور کمتر اساتذہ کو سربراہی منصب پر براجمان کیا جاتا ہے۔ ان ان اداروں کے Service rules اور Statutes کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ جب بھی کوئی اہم عہدے پر آسامی پر کرنا ہوتی ہے یہ پورا نیٹ ورک متحرک ہو جاتا ہے اور ایک نالائق کو اس عہدے پر تعینات کروا دیتا ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے ہمیں امریکہ میں ریڈ انڈین‘ آسٹریلیا میں ابورجینز اور جنوبی افریقہ میں کالوں کے ساتھ زیادتی کی مثالیں ملتی ہیں۔ پاکستان میں ایک عام پاکستانی کے ساتھ زیادتی میں فرق یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان میں اس کا شکار ہوتے ہیں وہ اس کا اظہار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان کے عام شہریوں کو اپنے ہی ملک میں خلائی مخلوق بنا دیا ہے۔ حالانکہ پاکستان کا دستور تمام شہریوں کو بلاامتیاز مواقع کی فراہمی کی یقین دہانی کراتا ہے اور یہ سب زیادتیاں منظم طریقے سے ہوتی ہیں۔ ماضی میں اس نظام نے پاکستان کی ترقی روکے رکھی جبکہ آج یہ نظام پاکستان کی بقا اور سا لمیت کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہے۔ پاکستان کے اہم ادارے اس نیٹ ورک کے زیر اثر رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خسارے میں چلتے ہیں۔ بالکل بدحال رہتے ہیں اور وہ سہولیات فراہم نہیں کر پاتے جن کے لئے یہ معرض وجود میں لائے گئے ہیں۔ ان اداروں کے فیل ہونے کی چار وجوہات یہ ہیں۔ اول ان کے سربراہ نالائق ہیں اور اس عہدے کے قابل نہیں جس پریہ تعینات کئے گئے ہیں۔دوسرا یہ کہ اس ادارے کو اس ملک یا بڑی طاقت کے مفاد میں استعمال کرتے ہیں جو ان کو اقتدار میں لے کر آئی ہے۔تیسرا یہ کہ تعیناتی ایک قسم کا انعام ہے۔ ان خدمات کے عوض جو ان حضرات نے ماضی میں دی ہیں اور اس وجہ سے یہ ادارے ذاتی مفاد کے حصول کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ ہر حکومت اپنے پسندیدہ افسران کو نوازتا ہے۔ ایسے افسران ہی سے انہیں توقع ہوتی ہے کہ وہ ان کے مشن پر چلیں گے۔ چوتھا یہ کہ ذاتی مفادات کے حصول نے ان اداروں کو دیوالیہ بنا دیا ہے جس کو بنیاد بنا کر ان کی اونے پونے داموں پر نجکاری کی جاتی ہے اور اس سے پھر دوبارہ مستفید ہوا جاتا ہے جیسا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے دوران ہوا۔ اس طریقے سے نامزد سربراہان ان اداروں کے اثاثے اپنی ذات کے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے پچھلے کئی گورنروں پر اس قسم کے الزامات ہیں۔ ایک سابق گورنر کی مسلم کمرشل بنک کی نجکاری میں جسٹس جواد خواجہ نے نشاندہی کی تھی مگر نیب نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ سٹیٹ بنک کے سابق گورنروں کے خاندان کے لوگ کمپنیاں بنا کر سٹیٹ بنک سے مستفید بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ بہت زیادہ معاوضے پر تعیناتیاں جو بنک کے قانون کی خلاف ورزی تھی کی گئیں۔ پاکستان کی ان جامعات میں جو حکومتی تحویل میں ہیں بہت سے غبن‘ کرپشن‘ اقربا پروری‘ ناجائز تعیناتیاں‘ تعلیمی معیار کی پستی اور بدامنی جیسے مسائل رونما ہوئے ہیں۔(جاری ہے)