ایک دوست سے جب بھی سیاست کے حوالے سے بات ہوتی ہے وہ ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ سیاست اوربیوروکریسی کے سینے میں دل نہیں ہوتا… دونوں ہی ایک دوسرے کا متضاد ثابت ہوتے ہیں…جیسے ہی کوئی سیاستدان اچھا کام کرنے کی جسارت کرتا ہے تو بیوروکریٹس اس پر پل پڑتے ہیں… اور جیسے ہی بیوروکریسی کوئی اچھا کام کرنے کا تہیہ کرتی ہے تو سیاستدان فوراََ ذاتی مفاد نہ ہونے کی غرض سے اس پراجیکٹ کا ستیا ناس کر دیتے ہیں… میں کبھی کبھار اس دوست سے اتفاق بھی کر لیتا ہوں کیوں کہ یہاں ہر شعبے کا کم و بیش یہی حال ہے، نہ صرف مندرجہ بالا صفات کے حوالے سے، بلکہ تنقید کی صورت میں ردِعمل کے حوالے سے بھی۔ اگر میڈیا والوں کے لیے تلخ بات منہ سے نکل جائے تو میڈیا والے حضرات بھڑ کے چھتوں کی طرح پیچھے لگ جاتے ہیں۔ بسا اوقات ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کو آئینہ دکھانا ان کا فرض ہے لیکن اگر کوئی دوسرا ان کو آئینہ دکھا دے تو پھر تماشہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ سیاستدان البتہ اس طرح کی تنقید کے زیادہ عادی ہیں، وہ کہتے ہیں بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟بقول شاعر جاوید اختر
دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا
اور باقی ادارے اور کئی شخصیات تو الاّ ماشاء اللہ ایسے ہیں کہ ان کے بارے میں بات کرنے کی اجازت ہی نہیں حالانکہ وہاں بھی ایسے ایسے گل کھلتے ہیں کہ چمن میں خوب دھوم مچی ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کے منہ سے بے ساختہ یہ جملے نکلے کہ انتظامی سطح پر ہمارے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں، بیورو کریسی میں پرانی حکومت کے لوگ ہر جگہ بیٹھے ہیں، سیاسی بیورو کریسی اور پولیس ہمارا کام خراب کر رہی ہے، لیکن 22 سال کی جدوجہد سے یہاں آیا ہوں اس لیے دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت ہے۔عمران خان نے قرض کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے قرضہ کو 36 ٹریلین تک پہنچادیا ہے، اگلے دو ماہ میں اگر حکومت پیسے نہ لیتی تو ملک دیوالیہ ہوجاتا، آئی ایم ایف کا اصل مسئلہ ان کی شرائط ہیں، آئی ایم ایف آخری آپشن ہے اور مزید ذرائع سے بھی استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، چین اور سعودی عرب سے اچھے پیغامات آرہے ہیں، دونوں ممالک سے مالی امداد کے حوالے سے بات ہو چکی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کو پتہ ہے کرپشن کے الزام میں ان میں سے کوئی نہیں بچے گا، اس لئے وہ شور مچا رہی ہے، پارلیمنٹ کے پہلے سیشن سے ہی انہوں نے شور مچانا شروع کردیا تھا، ہماری نیب میں براہ راست کوئی مداخلت نہیں ہے اور نیب کا کوئی کیس ہمارے دور میں شروع نہیں ہوا، پاکستان میں پیسہ تب آئے گا جب استحکام ہوگا، لوٹی دولت واپس لانے کے اعلان پر قائم ہیں اور جنہوں نے ڈاکے ڈالے ہم نے ان تک پہنچنا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، گردشی قرضہ بارہ سو ارب تک پہنچ گیا ہے، موجودہ حالات میں ڈالر کی قدر گرانے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے، وقت ثابت کرے گا کہ یہ اقدامات عارضی ہیں۔
مذکورہ بالا باتوں میں سے شاید کچھ پرانی ہوں مگر بیوروکریسی کے حوالے سے عمران خان نے جو کھل کر تنقید کی وہ واقعی لمحہ فکریہ ہے۔ اور پاکستان کے لیے تو یہ خاص طور پر لمحہ فکریہ ہے کیوں کہ یہاں ترقی کا پہیہ سازشیوں نے جام کرکے رکھ دیا ہے۔ جس سے نئی حکومت کے لیے ایک سو ایک مسئلے پیدا کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں بیورو کریسی کا کردار ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ مملکت کو احسن طریقے سے چلانے، موثر حکمت عملی وضع کرنے اور اسکے نفاذ میں اس مکالمے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مروجہ نظام حکومت سے قطع نظر بیوروکریسی، امور مملکت چلانے کیلئے ضروری ہے مگر اس کا انحصار حکومتی ڈھانچے پر ہے کہ وہ کیا کردار تفویض کرتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو بیوروکریسی ا چھا کردار ادا کر رہی ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں صورتحال بالکل برعکس ہے۔پوری دنیا میں بیورو کریسی کا اصل کام حکومت وقت کے قواعد و ضوابط کو بھرپور لگن اور دیانتداری سے نافذ کرنا ہوتا ہے۔ عوام کے وسیع تر مفاد میں سول ملازم کی حیثیت سے نظام حکومت چلانا بیورو کریسی کے فرائض میں شامل ہے۔ سیاستدان لمبے عرصہ کیلئے حکومت میں نہیں رہ سکتے اس لئے بیوروکریسی بہتر انداز میں زیادہ عرصے کیلئے حکومتی نظا م کی دیکھ بھال کر سکتی ہے۔ قواعد و ضوابط وضع کرنے کی ذمہ داری بیورو کریسی کی نہیں ہو تی البتہ وہ اس عمل میں حکومت وقت کی معاون ضرور ہو سکتی ہے۔ عوام کا منتخب نمائندہ ہونے کی حیثیت سے سیاستدانوں کو قواعد و ضوابط وضع کرنے چاہئے مگر سابقہ نااہل سیاسی قیادت نے بیورو کریسی کو سول ملازم سے حکمران بنا دیا ہے، فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسے لوگوں کو پروموٹ کرکے آگے لانے کا جو نظام پچھلی حکومت نے دیا وہ واقعی تشویش کا باعث ہے۔
یہ المیہ ہے کہ بیورو کریسی کے مزاج میں سختی اور لچکدار رویہ بہت نمایاں ہوتاہے۔جیسے اس کی مثال یہ ہے کہ پرانی حکومت میں یہی بیوروکریسی ہر معاملے کو طول دینے میں ماہر سمجھی جاتی تھی۔ ون مین شو کا حکم مانتی تھی باقی سب کو اپنی طرف سے فارغ سمجھتی تھی ۔ نئی حکومت آئی تو ساتھ ہی اسی بیوروکریسی کے ذریعے قبضے بھی واگزار کروائے جارہے ہیں۔ سابقہ حکومت کی کرپشن کو بھی آشکار کیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر کام میں یکسوئی اور حب الوطنی کا عنصر بھی نمایاں نظر آرہا ہے۔ مشہور جرمن ماہر عمرانیات Max Weberکی نظر میںبیوروکریسی عوامی جذبات کو اہمیت نہیں دیتی اس لئے قواعد و ضوابط وضع کرنے کا اختیار اسے نہیں دیا جا سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ بیوروکریسی کے مفادات عوامی مفادات سے متصادم ہوتے ہیں اس لئے بنیادی پالیسی بنانے میں اسکا کردار مثبت نتائج لانے میں مانع رہے گا۔
اس کے پیش نظر اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ ریاست کے تین بنیادی ستون مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ہیں۔ مقننہ کاکام قانون سازی، عدلیہ کے ذمہ قانون کی شرع اور توضیح جبکہ انتظامیہ قوانین کے عملی نفاذ کی ذمہ دار ہے۔ مثالی جمہوری معاشروں کی روایت تو یہی ہے کہ مقننہ قانون سازی کرے اور انتظامیہ اسے نافذ۔ مگر تیسری دنیا کے معاملات ہی نرالے ہیں۔اداروں کی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے متنوع نقطہ ہائے نظر کا خیال رکھنا ہی جمہوریت کا حسن رہا ہے۔ یہ رویہ عدل و انصا ف کے نظام کیلئے بھی ضروری سمجھا جاتا رہا ۔اب اگر عمران خان بیوروکریسی کے اثرات کو زائل کرنا چاہتے ہیں اور ملک کے لیے حقیقی پراجیکٹس پر کام کرنا چاہ رہے ہیں تو یہی ’’سسٹم ‘‘ آڑے آرہا ہے جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے۔ لہٰذابیوروکریسی کے کردار کو ملکی ترقی کیلئے موثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کی تشکیل کے عمل میں انقلابی اقدامات کئے جائیں ۔ منتخب نمائندوں کی ایسی تربیت کروائی جائے یا کی جائے کہ انہیں بیوروکریسی کی بیساکھی کی ضرورت ہی نہ پڑے اس سے کوئی غلط گائیڈ نہیں کر سکے گا۔ وہ عوامی اور ملکی مسائل کے تناظر میں قانون سازی کے عمل کو جاری رکھیں اور بیورو کریسی کو سیاسی اور پارٹی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی بجائے اسکی صلاحیتوں سے عوام کوسہولیات بہم پہنچائی جائیں۔ ملکی اور عوامی مفادات کے تناظر میں قانون سازی کے عمل کو وہی پارلیمنٹ بہتر انداز میں آگے بڑھا سکتی ہے جو عوام کے مسائل کا نہ صرف ادراک رکھتی ہو بلکہ انہیں حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہو۔ اس لئے بیوروکریسی کے کردار کو بہتر بنانے کیلئے اسے سیاست سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔کامیاب ریاست کیلئے ضروری ہے کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی بجائے معاون ہوں۔ ان اداروں کا باہمی تعاون ہی بیوروکریسی کو عوام کیلئے سرخ فیتے کی بجائے ایک مددگار ادارے میں بدل سکتا ہے۔ورنہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے حقیقت میں یہ لوگ مشکلات میں اضافہ کرنے کا باعث بنتے رہیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024