انٹری ٹیسٹ کا ’’ظہور‘‘
مکرمی ! روزنامہ نوائے وقت میں تیرہ اکتوبر کو یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ’’ڈیرہ غازی خان بورڈ میں مجموعی طور پر پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی طالبہ فریال پرویز نے 1057 لینے کے باوجود انٹری ٹیسٹ کے زریعے میڈیکل کالج میں داخلہ نہ لے سکی۔ یہ عجیب بات ہے کہ کالج میں جہاں دوسال کے دوران چار سہ ماہی‘ دو ششماہی اور دوسالانہ امتحانات کی محنت پر خواہ مخواہ کی دو گھنٹے کے انٹری ٹیسٹ کی محنت کو ترجیح دی جائے۔ مزید یہ کہ آپ کو اپنی یونیورسٹیوں اور کالجوں پر اعتماد ہی نہیں ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس عمل کو شروع کرنے کی یہ دلیل دی تھی کہ کالجوں کے امتحانوں میں نقل اور بوٹی مافیا عام ہے واہ میاں صاحب واہ! اسے کہتے ہیں ’’ماروں گھٹنہ پھوٹے آنکھ‘‘ بوٹی مافیا والوں کو اگر فوری طور پر کڑی سزائیں دی جائیں تو یہ ناجائز کام ختم ہو سکتا ہے۔ اگر کالجوں کے امتحانوں میں بے ایمانی پھیل گئی ہے تو انٹری ٹیسٹ کا بندوبست کرنے والے کیا آسمان سے لائے ہوئے فرشتے ہیں؟ اس انٹری ٹیسٹ میں بھی بے ایمانی کا ثبوت یہ ہے کہ جولائی / اگست 2011ء میں انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخلے کے لئے جو انٹری ٹیسٹ ہوا تھا تو وہاں یہ بھانڈہ پھوٹا کہ اس کا پرچہ تو کئی دن پہلے آؤٹ ہو کر بکتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پولیس نے گوجرانوالہ کے ایک پروفیسر اور ان کے شریک تین ملزموں کو گرفتار کر لیا اور اس پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ یہ مافیا عرصہ سے اس جرم کا ارتکاب کر رہا تھا۔روزنامہ نوائے وقت مورخہ 15 ستمبر 2011ء میں سرراہے کے تحت جو بصیرت افروز تبصرہ لکھا گیا تھا وہ پیش ہے۔ انٹری ٹیسٹ کا ’’لچ‘‘ کس نے تلا ہے ؟ کیا خود اپنی ڈگری کے حوالے سے ایسا ٹیسٹ دینے کے لئے تیار ہیں؟ اگر انٹری ٹیسٹ میں کامیابی ہی پر داخلے کا انحصار ہے تو ایف ایس سی (میڈیکل) کالج کا سرٹیفیکیٹ کس مرض کی دوا ہے ؟ پہلے تو اس پر داخلے ملا کرتے تھے اب بچوں اور ان کے والدین کو کیوں پریشان کیا جا رہا ہے؟ قوم سے یہ کھیل تماشہ بند کیا جائے۔ تعلیم کو مشکل نہ بنائیں تاکہ ہر بچہ آسانی سے اپنی منزل تک پہنچ سکے۔ وزیراعلیٰ اس مسئلے پر غور کریں تاکہ لاکھوں بچوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ جائے۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ تو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے تھے انہوںنے اس فضول ٹیسٹ پر غور ہی نہ کیا۔ اب میں پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے پرزور التجا کرتا ہوں کہ وہ اس انٹری ٹیسٹ کی ہزیمت کو فوری طور پر ختم کرنے کے احکامات جاری کریں۔
(لیفٹیننٹ کرنل ر یٹائرڈ حامد محمود راولپنڈی)