اتوار ‘ 11؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 21اکتوبر 2018ء
اسلام آباد میں زلزلہ، اجلاس کے دوران وزرا کھڑے ہو گئے ،وزیراعظم کا باہر جانے سے انکار
اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم کتنے بے خوف اور دبنگ ہیں۔ اب ان کو چیلنج کرنے والے حضرات ذرا سوچ سمجھ کر ان سے پنجہ آزمائی کرنے کا سوچیں۔ کیونکہ انہوں نے زلزلہ کا خوف طاری نہ ہونے دے کر ثابت کر دیا ہے کہ انہیں ڈرایا نہیں جا سکتا۔ بطور کپتان بھی وہ ایسے ہی تھے ،کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اپنی مرضی سے کھیلتے اور کھلاڑیوں کو کھلاتے تھے۔وہ اب بھی یہی کر رہے ہیں۔ اب اس وقت اجلاس میں شریک دیگر وزرا کا حال دیدنی تھا جو زلزلے کے جھٹکے لگتے ہی گھبرا کر باہر دوڑنے کی تیاری کرنے لگے تھے مگر جب دیکھا کہ ان کا کپتان کرسی پر براجمان ہے اور اُٹھا تک نہیں تو واپس نشستوں پر بیٹھ گئے مگر دل ہی دل میں کپتان کو کوستے رہے ہوں گے کہ خود تو مرے گا ہمیں بھی مروائے گا۔ حفاظتی عملے نے بھی وزیراعظم کو باہر نکلنے کا کہا مگر خان صاحب نہیں مانے اور کہا کہ اب زلزلہ تو آ رہا ہے، باہر جانے یا ناجانے سے کیا ہو گا۔ اس موقعہ پر احتیاط بہت ضروری ہے۔ اسلام بھی ہمیں محتاط رویہ کا درس دیتا ہے۔ بہت زیادہ خود اعتمادی بھی کبھی کبھی نقصان پہنچاتی ہے۔ اس لئے وزیراعظم کو احتیاط بھی کرنی چاہیے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت انہی کے دم قدم سے ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کا دوسرا نا م سونامی ہے وہ جب بھی آتا ہے تو غیروں کے ساتھ اپنوں کو بھی بہا لے جاتا ہے۔
٭…٭…٭…٭
امرتسر میں راون کو جلاتے ہوئے ہجوم پر ٹرین چڑھ گئی ، 61افراد ہلاک
شایدامرتسر میں راون نے اپنے پتلے جلائے جانے کے خلاف احتجاجاً غصے میں آ کر ان لوگوں سے بدلہ لیا ہو جو آج خود راون بنے ہوئے ہیں۔ راون سری لنکا کا ایک ظالم اور جنگجو حکمران تھا۔ اس نے بھارت کے اندر گھس کر نہتے شری رام کی اہلیہ سیتا کو اغوا کیا۔ یہ اس کا پاپ اتنا بڑا تھا کہ آج تک پورے بھارت میں عورت کی عزت و حرمت کے نام پر اس راکھشس کے پتلے جلا کر اس سے نفرت کا اظہارکیا جاتا ہے۔ مگر افسوس آج اسی بھارت میں عورتوں کا جو استحصال ہو رہا ہے۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ جس کام پر شری رام چندر نے راون کا سروناش کیا تھا آج وہ بھارت میں کھلے عام ہو رہا ہے۔کیا آج بھارت میں ایسے لوگوں کو بھی سزا مل رہی ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اسی بات پر راون کو غصہ آیا ہو گا جس وجہ سے اسے مار کر اس کی سونے کی لنکا کو جلایا گیا آج اس میں ملوث لوگوں کو سزا کیوں نہیں دی جا رہی۔
امرتسر میں جو واقعہ پیش آیا وہ نہایت افسوسناک ہے مگر اتنے سارے لوگ راون کے جلنے کا منظر دیکھتے ہوئے کیا سدھ بدھ کھو چکے تھے کہ انہیں ٹرین کی آواز تک سنائی نہ دی کہیں یہ بد بخت راون کی شرارت ہی تو نہیں تھی۔
٭…٭…٭…٭
حکومت نے قوم پر مہنگائی کا طوفان
مسلط کر دیا: فضل الرحمن
اس وقت ملک میں سیاستدان بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں ۔ سب کو اپنی اپنی فکر لگی ہوئی ہے کوئی جان بچا رہا ہے کوئی مال بچا رہا ہے ۔ کسی کو اپنی کرسی کی فکر ہے کسی کو اپنی وزارت کی۔ اس حالت میں بھی اگر کوئی قوم کا حقیقی غم کھا رہا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن ہیں ۔ورنہ باقی سب قوم کے غم میں ڈنر کھاتے پھرتے ہیں ۔ مولانا کو دیگر تمام غموں کے علاوہ یہ غم بھی اندر ہی اندر سے کھائے جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کردیاہے۔بات یہ سچ بھی ہے۔ کوئی اس سے انکار بھی نہیں کر سکتا۔ ہاں جو لوگ اشرافیہ یا ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ان کو حق ہے کہ وہ مولانا کی بات سے اختلاف کریں ۔ مگر عوام الناس البتہ مہنگائی کی زد میں آ کر صرف کراہ ہی نہیں چیخ بھی رہے ہیں۔ مولانا نے جس طرح عوام کے نبض پر ہاتھ رکھا ہے اس سے امید ہے عوام کے دل میں بھی ان کے لئے ہمدردی پیدا ہوگی کہ اس دور ابتلا میں کوئی تو ہے جو ان کا درد محسوس کر رہا ہے ۔ مولانا کا اپنا تعلق بھی اشرافیہ سے ہے۔ مگر آفرین ہے ان پر کہ ان کے دل میں غریب عوام کا درد کا موجزن ہے،باقی کسی کو تو اس کی فکر ہی نہیں ہے ورنہ یہ سب مل کرکم از کم مہنگائی کے حوالے سے ہی وہ پورے ملک میں طوفان برپا کر سکتے ہیں ۔ مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہاعوامی لیڈر بننے کا حق صرف مولانا ادا کر رہے ہیں۔ ہے ناں تعجب کی بات…
٭…٭…٭…٭
یوگنڈاکی 40سالہ خاتون 44بچوں
کی ماں ،38زندہ ہیں
قدرتی وسائل سے مالا مال یوگنڈا مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے، انگریز نو آبادی تھی ۔ ساٹھ کے عشرے میں آزاد ہوا ، باشندے عموماً غیر معمولی قدو قامت اور ڈیل ڈول کے مالک ہوتے ہیں۔ یوگنڈا کی ایک اور وجہ شہرت عیدی امین ہیں ۔ ستر کے عشرے میں انقلاب برپا کرکے اقتدار میں آئے ۔ وہ بھی کثرت ازدواج کے بہت شوقین تھے ، اقتدار میں آئے تو مسیحی تھے ،پھر معمر قذافی مرحوم سے ملاقات ہوئی تو ان کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر لیا۔ لیبیا کے انقلابی رہنما ان دنوں سوویٹ یونین کے بہت قریب تھے اور اس نے انہیں افریقہ میں مغرب نواز حکومتوں کا تختہ الٹنے پر مامور رکھا تھا ۔ اس خدمت کے عوض سوویٹ یونین نے ان کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا تھا۔ بنیادی طور پر مسلمان تھے اس لئے انہوں نے جوش ایمانی کی بدولت سوویٹ یونین کے اشتراکی نظام کو بھی ،’’ جماھیریہ‘‘ کے نام سے مشرف بہ اسلام کر لیا تھا ۔ اب نہ قذافی رہے نہ عیدی امین رہے، آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند، البتہ یوگنڈا جمہوری نظام کے تحت ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔اس چالیس سالہ خاتون نے پہلا بچہ 13سال کی عمر میں جنا اور پھر چل سو چل ، بیک وقت جڑواں ہی نہیں، تین تین اور چار چار بچے بھی جنتی گئی۔ ابھی تو میں جوان ہوں۔ چالیس سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے توقع ہے کہ یہ سلسلہ ابھی مزید پندرہ سال جاری رہے گا۔ اب ریاضی دان ہی بتا سکتے ہیں کہ اگر 27سال میں 44بچے پیدا ہوں تو یہ تعداد مزید 15سال میں کتنی ہو جائے گی؟؟ معلوم نہیں یہ آبادی میں اضافہ مسلمانوں کے حصہ میں آیا ہے یا مسیحیوں کے ۔