عام انتخابات کے اڑھائی ماہ بعد ہونے والے قومی اسمبلی کے 11اورصوبائی اسمبلیوں کے 24 حلقوں میں ضمنی انتخابات کودراصل 25 جولائی 2018 کو ہونے والے انتخابات کی ’’شفافیت‘‘ یا ’’غیر شفافیت ‘‘کے بارے میں عوامی ریفرنڈم کی حیثیت ہو گئی ہے ۔ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کو کئی سیاسی جماعتوں نے قبول نہیں کیا۔ رات کے پچھلے پہر عوامی مینڈیٹ کیخلاف کی جانے والی کارروائی کی تحقیقات کے لئے 30رکنی پارلیمانی کمیشن کا قیام اپوزیشن کی اخلاقی و سیاسی کامیابی ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ 14 اکتوبر 2018 کو 35 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخاب نے 25 جولائی 2018 کو ہونے والے انتخابات کا پول کھول دیا ہے۔ جن چار نشستوں کو وزیر اعظم عمران خان نے خالی کیا ان میں سے دو نشستیں اپوزیشن نے واپس چھین لی ہیں ۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی خالی کی ہوئی کئی نشستوں پر اپوزیشن نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ( ن) قومی اسمبلی کی نشستوں پر سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت بھی بن گئی ہے ، پاکستان مسلم لیگ ن نے ضمنی انتخابات میں 4لاکھ 84ہزار 192ووٹ حاصل کئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف 4لاکھ 79ہزار 587 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہی ۔ پاکستان مسلم لیگ( ق) نے ایک لاکھ 66ہزار اور متحدہ مجلس عمل نے قومی سمبلی کی نشستوں پر 31ہزارووٹ حاصل کئے ، پاکستان پیپلز پارٹی نے 33ہزار 749 اور ایم کیو ایم پاکستان نے قومی اسمبلی کی نشستوں پر 15ہزار 434 ووٹ حاصل کئے، عام انتخابات میں حاصل ہونے والے ووٹوں کا تناسب اس سے مختلف ہے۔ اس میں الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت قرار دیا تھا جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر تھی۔ ضمنی انتخابات میں بڑے انتخابی اپ سیٹ ہوئے ہیں ۔ نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے جب کہ لاہور ’’لینن گراڈ‘‘۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ووٹرز اب بھی عمران خان کے’’ سحر ‘‘میں مبتلا ہیں۔ این اے 60 راولپنڈی فور کا نتیجہ مشکوک ہو گیا ہے۔ اس نشست پر پاکستان مسلم لیگ ن کے سجاد خان اور پاکستان تحریک انصاف کے شیخ راشد شفیق کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ راولپنڈی مسلم لیگ ن کا شہر ہے لیکن 2013ء کے عام انتخابات میں دونوں نشستوں پر تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کی کامیابی نے اس تاثر کو زائل کیا۔
2018 ء کے انتخابات میں این اے 62 سے شیخ رشید احمد کی مسلم لیگی امیدوار بیرسٹر دانیال چوہدری کے مقابلے میں بھاری اکثریت کی کامیابی کا پول بھی کھل گیا ہے این اے 60 میں کانٹے دار مقابلہ نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ 25 جولائی 2018 کی رات شیخ رشید احمد کے حلقے کے ووٹوں کی ’’گنتی‘‘ تبدیل کی گئی۔ اسی طرح این اے 56 اٹک میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک سہیل کمڑیال کے ہاتھوں شکست بھی ایک بڑا اپ سیٹ ہے۔ اٹک کی سیاست میں میجر طاہر صادق کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے مستقبل کا سیاسی نقشہ واضح ہو گیا ہے ۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ’’ ضمنی الیکشن میں ہمیں توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی ہے ، یہ واضح پیٖغام ہے کہ آنے والا وقت کس کا ہے‘‘۔ ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان پنجاب میں مقابلہ تو ہوا ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ ن کو پاکستان تحریک انصاف پر واضح برتری حاصل ہوئی ۔
پیپلز پارٹی نے سندھ میں خالی ہونے والی دونوں نشستیں حاصل کر لیں۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل نے بنوں میں قومی اسمبلی کی چھینی ہوئی اپنی نشست واپس حاصل کر لی۔ کے پی کے میں عوامی نیشنل پارٹی کی شاندار کارکردگی نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ وفاقی دار الحکومت اسلام آباد ، راولپنڈی اور ٹیکسلا کی تینوں نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن راولپنڈی کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کا موقف ہے کہ رات کے پچھلے پہر اس نشست پر نتائج تبدیل کر دئیے گئے ۔
ضمنی انتخابات کے نتائج سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں پارلیمانی قوت میں کوئی خاص فرق تو نہیں پڑا لیکن انتخابی نتائج عوامی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر کسی وقت بھی انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو مسلم لیگ ن اپنا ڈول پوری طرح بھر لے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سینئر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کے نتائج کا تقابل کیا اور کہا کہ ’’ ضمنی انتخابات کے نتائج نے مسلم لیگ ن کے مینڈیٹ چوری ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔
قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 155سے بڑھ کر 159ہو گئی ہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تعداد 81 سے بڑھ کر 85 ہو گئی جب کہ ایم ایم ایم اے نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کر کے اپنی تعداد 16 کر لی ہے اسی طرح پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے5 ,پاکستان تحریک انصاف نے 4 نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ آزاد منتخب ہونے والے2 ارکان بھی جلد مسلم لیگ ن کا حصہ بن جائیں گے کیونکہ وہ مسلم لیگ ن کی حمایت سے ہی کامیاب ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف نے5 ،مسلم لیگ (ن) نے ایک ، اے این پی نے 3، سندھ میں پیپلز پارٹی نے2،بلوچستان میں بی این پی نے ایک نشست حاصل کی جب کہ ایک آزاد امیدوارکامیاب ہوا ہے ۔ تحریک انصاف کو پنجاب اور کے پی کے میں خاصا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے این اے 60 کے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس نشست پر رات گئے تک ’’گنتی‘‘ جاری رہی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جیسے جیسے انتخابی نتائج آ رہے تھے، ویسے ویسے لال حویلی کی بتیاں’’ گُل‘‘ ہو رہی تھیں رات اڑھائی بجے ریٹرننگ افسر نے پاکستان تحریک انصاف کے شیخ راشد شفیق کی کامیابی کا اعلان کر دیا۔ شیخ رشید احمد اپنے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو عوامی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑانا چاہتے تھے لیکن کپتان نے انھیں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے پر مجبور کر دیا۔ ضمنی انتخاب میں یہ واحد حلقہ ہے جس کے نتائج کو ’’مشکوک ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ این اے 60 سے اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سجاد خان کو مسلم لیگ کے رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان کی حمایت حاصل تھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ سجاد خان نے957 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ شیخ راشد شفیق 44 , 483ووٹ حاصل کئے جن میں اوور سیز پاکستانیز کے ووٹ شامل کر کے 993 کی اکثریت سے کامیاب قرار دے دیا گیا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سجاد خان نے 43836 ووٹ حاصل کئے۔ این اے 63 (واہ ٹیکسلا) جو تحریک انصاف کے غلام سرور نے خالی کی تھی دوبارہ ان کے صاحبزادے منصور حیات نے کامیابی حاصل کر لی یہ وہ حلقہ ہے جہاں دو روایتی حریفوں چوہدری نثار علی خان اور غلام سرور کے درمیان مقابلہ ہوتا رہا ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس نشست پر بیرسٹر عقیل ملک کو پارٹی ٹکٹ دے دیا جو پنجاب اسمبلی کے سابق رکن عمر فاروق کے بھتیجے ہیں انہوں نے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممتاز خان کے مقابلے میں دو گنا سے زائد ووٹ حاصل کئے۔
عام انتخابات میں این اے 63 میں پاکستان تحریک انصاف کے غلام سرور خان کو 100986 ووٹ ملے تھے جبکہ آزاد امیدوار چوہدری نثار علی خان کو 65762 ووٹ ملے۔ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے منصور حیات کو 71782 جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار بیرسٹر عقیل ملک کو 45490 ووٹ ملے ۔ سیاسی حلقوں میں یہ سوال موضوعِ گفتگو ہے کہ اس حلقے میں عام انتخابات کے مقابلے میں ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو کم ووٹ کیوں ملے ہیں؟ جبکہ مقابلے پر چوہدری نثار علی خان امیدوار نہیں تھے۔ چوہدری نثار علی خان کی ’’شکست‘‘ کا ابھی تک عقدہ حل نہیں ہوا ان کی شکست کے عوامل جلد منظر عام پر آنے کا امکان ہے ۔
این اے 56 اٹک میں بڑا اپ سیٹ ہوا اس نشست سے مسلم لیگ(ن) کے سہیل کمڑیال نے36ہزار کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ان کی شاندار کامیابی میں میجر طاہر صادق کا بڑا عمل دخل ہے۔ میاں شہباز شریف کی پارلیمنٹ ہائوس میں سینئر اخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران بار بار ان سے نواز شریف اور ان کے بیانیہ میں فرق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’پارٹی کے اندر کسی ایشو پر اختلاف رائے تو ہو سکتا ہے لیکن جب پارٹی کوئی فیصلہ کر دیتی ہے تو پھر سب اس پر یکسو ہو کر عمل کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ضمنی انتخاب میں میاں نواز شریف کے بیانیہ کو پذیرائی حاصل ہوئی ہے ۔ میاں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد ہیں اور دیگر رہنمائوں کی حیثیت ان کے ساتھیوں کی سی ہے۔ لہذا پارٹی کے قائد جو پالیسی بناتے ہیں، اسی کو سب فالو کرتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے ضمنی انتخابات کے نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ایک انتخابی حلقہ کے سوا تمام نتائج کو قبول کیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے نواز شریف کے ’’بیانیہ‘‘ کو آگے لے کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی تنظیم نو کی جا رہی ہے۔ آئندہ چند دنوں میں مسلم لیگ ن کی تازہ دم ٹیم میاں نواز شریف کے بیانیہ کو آگے لے جانے کے لئے میدان میں سرگرم عمل نظر آئے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024