واشنگٹن پوسٹ کے ایک نامور کالم نگا جارج ول نے مطالعہ کتب کے حوالے سے ایک تازہ کتاب کا خلاصہ لکھا ہے۔
ویتنام کی جنگ کے موضوع پر یہ کتاب امریکی تاریخ کے ایک المناک سانحہ کا مطالعہ ہے۔ گو اس موضوع پر نہ جانے کتنی داستانیں، تجزیات، سرکاری رپورٹیں اور آپ بیتیاں لکھی جا چکی اور کتنی ہی یادگاریں تعمیر ہو چکی ہیں لیکن یہ ایسا گہرا زخم جس کا گھاؤ نہ صرف مندمل نہیں ہوتا بلکہ آئے دن اس سے متعلق نئے حقائق اس کو مزید گہرا کردیتے ہیں۔ اس کے اسباق آج بھی دست بستہ درخواست کر رہے ہیں کہ ہمیں بھلا کر مزید زخموں کا اہتمام نہ کئے جائیں۔ اس خطے کیلئے اس مضمون کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس کا ترجمہ نذر قارئین کر رہے ہیں۔
والٹربومراپنیمرینکور، جہاںسے وہ چار ستاروں والے جنرل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے، کی سروس کی ابتداء میں ویتنام کی جنگ میںبہادری کے تمغے سے سرفراز ہوئے تھے۔ انہوں نے اس ساری داستان ِہزیمت کو تین الفاظ میںسمیٹ دیا ہے: سچ بتا دو، مارک ہیسٹنگز، جو ایک نامور برطانوی صحافی اور تاریخ دان ہیں، نے یہ کام بہت احسن طریقے سے اپنی نئی کتاب میںکر دیا ہے جو تکلیف دہ ضرور ہے لیکن ہمارے ضمیر لگے اس گھاؤ کی یاد دلاتی ہے جسے ہم بھول جانا چاہتے ہیں۔ "ویتنام: ایک مہاکاوی سانحہ1945-1975 " ہیسٹنگز کی بے پناہ تحقیقی صلاحیت اور اس کی تند و تیز فیصلوں کی قابلیت کا ثمر ہے۔ یہ ایک امریکی دوست کا ایسا تجزیہ ہے جس میں اس نے سیاسی اور فوجی جھوٹ، دھوکہ بازی اور فریب کے ان انباروں کو جو امریکی قوم کو اب معلوم ہو رہے ہیں بڑی بیدردی کیساتھ بے نقاب کیا ہے اور کسی کو نہیں بخشا ۔ جس سے قوم کو نامور فلسفی اوکشوٹ کے اس کلیے کو سمجھنے کا موقع ملا ہے کہ "کسی ایسی مہم جوئی کو انجام دینا جو فی نفسہ ناممکن ہو وہ صرف کرپشن کی مہم بن جاتی ہے"۔
ویتنام امریکی بہادری کا المناک ضیاع ہے، لیکن ویتنامیوں کیلئے یہ اس سے بھی بڑا سانحہ تھا جس میں بیس سے تیس لاکھ ویتنامی جانیں تیس سال کے عرصے میں ضائع ہوئیں، لیکن آخری دس سالوں میں جب یہ جنگ ہولناک شکل اختیار کرگئی، ایک امریکی کے مقابلے میں چالیس ویتنامی مارے گئے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکی فوجی کمانڈروں اور سیاسی رہنماؤں نے نہ صرف اپنی قوم سے بے تحاشہ جھوٹ بولا بلکہ بدقسمتی سے خود اپنے آپ سے بھی۔
1955 میں امریکی وزیرخارجہ جان ڈلس نے سائیگان ایک ٹیلگرام بھیجا جس میں وزیر اعظم نگوڈائم کوعہدے سے فارغ کردینے کی اجازت دی گئی تھی، اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک پارلر میں کام کرنے والی آیا کو برطرف کردیا تھا لیکن چھ گھنٹے بعد ڈلس نے اپنا ذہن بدل دیا اور ڈائم اپنے عہدے پر برقرار رہا یہاں تک کہ 1936میں صدر کینیڈی کے حکم پر ایک فوجی انقلاب میں اس کو قتل کردیا گیا۔
ہیسٹنگز اپنے نشتر بھرے انداز میں بیان کرتا ہے کہ جب انقلاب کا وقت قریب آیا تو سی آئی اے کا ایک ایجنٹ ساؤتھ ویتنام آرمی ہیڈکواٹر پہنچا اور "اس کے پاس ایک ریوالور اور 40 ہزار ڈالر نقد موجود تھے، گویا یہ اثاثے ایک ایسی دوپہر کیلئے کافی تھے جس میں ایک حکومت کا تختہ الٹنا تھا"۔لنڈن بی جانسن نے ایک موقع پر میکانگ دریا پر ایک بلین ڈالر کی مدد سے ڈیم تعمیر کرنے کا عندیہ دیا تاکہ شمالی ویتنام کی مزاحمت کو خرید لیا جائے، اور یہ کہا کہ "وہ بوڑھا ہوچی من اس پیشکش کو نہیں ٹھکرا سکتا"۔
ویتنام کے پس منظر پر بننے والی ایک امریکی فلم "خاموش امریکی" کا ہیرو ایک موقع پر کہتا ہے کہ "میں نے کبھی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کے پاس اس کی پیدا کی ہوئی تکلیفوں کے اس قدر اچھے دلائل ہوں اور جو اسلحے اور اپنی نادانی حب مال سے آزادی سے ناقابل تسخیر طور پر مسلح ہو"۔ اس کے برعکس جانسن کی پیشکش اپنے ذاتی مفادات سے آلودہ تھی۔
1946ء میں اس نے سچائی کو اور نوجوانوں کو بلا ضرورت قربان کردیا کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنی لینڈ سلائیڈ انتخابی کامیابی کو ممکن نہیں بنا سکتا تھا۔ اس کا مخالف ریپبلکن صدارتی امیدوار بیری گولڈ واٹر اس پر جنگ کا مخالف ہونے کا الزام لگا رہا تھا جو تین ماہ کے بعد حاصل ہوگی اس امریکی کانگریس کی قرارداد سے جسے "خلیج ٹانکن قرارداد" کہا جاتا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ پوری قوت کیساتھ ویتنام کی خانہ جنگی میں شمالی ویتنام کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف صف آراء ہوگیا۔ اس قرارداد کی بنیاد ایک من گھرٹ رپورٹ کو بنایا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی بحری جہاز جو اس خلیج میں داخل ہوئے تھے ان پر شمالی ویتنام کی بوٹس نے حملہ کردیا ہے۔
بعد ازاں متعدد تحقیقاتی رپورٹوں نے اس سارے واقعہ کو سراسر غلط فہمی اور قیاس آرائیوں پر مبنی قرار دیا۔ آٹھ سال کے بعد صدر نکسن نے اپنی شاندار کامیابی کے حصول کیلئے اس جنگی حکمت عملی، سفارت کاری اور سچائی کو مزید پیچ و خم سے دوچار کردیا۔ بہت سے امریکی فوجی اس وجہ سے مارے گئے کہ ان کی ایم 61 رائفل میں لڑائی کے دوران خرابی پیدا ہوگئی۔ جب رائفل بنانے والی کمپنی سے شکایت کی گئی تو اس کے مالک نے جواباً کہا کہ امریکی فوجی بہت جھوٹ بولتے ہیں۔
نامور فوٹو گرافر ایڈی ایڈم کی پلٹزر انعام یافتہ وہ تصویر جس میں 1986 میں ٹیٹ جارحیت (جس میں شمالی فوجوں نے بڑے پیمانے پر جنوبی فوجوں پر حملے شروع کیے تھے) کے دوران سائگان کے پولیس چیف کو ایک ویٹ کانگ کے سر پر گولی مارتے دکھایا گیا تھا اور جس سے بظاہر امریکیوں کی ہمدردیاں دشمن کی طرف بدل رہی تھیں۔ ہیسٹنگز نے اس پر ایک سرد نگاہ ڈال کر مسترد کردیا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ ویٹ کانگ شہری لباس میں تھا اور کچھ دیر پہلے اس نے ایک جنوبی ویتنامی فوجی افسر، اس کی بیوی، چھ بچوں اور80 سالہ ماں کو گلے کاٹ کر قتل کردیا تھا۔ ہسیٹنگز نے کئی لڑائیوں کی رپورٹس لکھی ہیں جن میں کچھ نامور ہیں اور کچھ صرف ان لوگوں کو یاد ہیں جو ان میں شریک تھے۔ ان میں سے کچھ کا اس نے کھوج لگایا ہے۔ یہ کام بھی اس نے نہایت خوبصورتی سے مکمل کیا ہے اور اس کا مقصد وحید یہ جاننا ہے کہ "جنگ کیسی تھی"ہیسٹنگز کہتا ہے کہ "یہ روز قیامت کی لڑائی تھی جس میں ہاتھیوں کی گھاس، جنگل اور چاول کی فصل کا حصہ حاصل کرنے پر دو بدو لڑائی نہ صرف ہر مہینے بلکہ ہر سال دوہرائی جاتی تھی"۔ امریکہ کی ناگزیر ناکامی شائد، ہیسٹنگز کی مدد سے، اس کو ایک قیامت خیز خارجی پالیسی سے بچالے۔ایک تاریخی کتاب ایک تاریخی عمل بن سکتی ہے، اگر وہ کسی قوم کو اپنے ماضی کی غلطیوں کو دیکھ کر اپنا طرز عمل بدلنے پر مجبور کردے اور وہ اپنا مستقبل سنوار لے۔ صاف ظاہر ہے کہ ویتنام کا تجربہ اس ضمن میں زیادہ سبق آموز نہیں تھا۔
اپنے اختتامی کلمات میں ہیسٹنگز لکھتا ہے کہ "مجھے اس بات کا صدمہ ہے کہ ہم نے اس سے کچھ زیادہ سبق نہیں سیکھاکیونکہ اگر ہم نے یہ کیا ہوتا تو ہم نے عراق کیخلاف جارحیت نہ کی ہوتی"۔ مارکس کے مقولے کے برخلاف تاریخ خود کو دہراتی ہے پہلے سانحے کی شکل میں لیکن کبھی وہ ڈھونگ و فریب ہونے کے بجائے پھر ایک اور سانحے میں بدل جاتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024