حالات حاضرہ پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ زمانہ تیزی سے قیامت کی چالیں چل رہا ہے مگر ہم ہیں کہ تاحال ’’خلائی مخلوق‘‘، ’’پٹواریوں‘‘ اور جانے کس کس ڈھنگ سے خود کو بحیثیت قوم مطعون کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ گویا ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ دائروں کے سفر سے آگے نہیں بڑھیں گے تبھی تو عام انتخابات کے تقریباً ڈھائی ماہ ہونے کے بعد بھی داخلی سیاست کے بھنور سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں۔ یوں ہم شعوری اور لاشعوری طور پر اپنی ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں ہر ممکن معاونت کر رہے ہیں گویا بقول جون ایلیا …؎
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا ، اور ملال بھی نہیں
دوسری جانب فریق مخالف جو کہ بلاشبہ بھارت ہے (جس کی معاونت کئی دیگر غیر ملکی ایجنسیاں دامے درمے اور سخنے ہر طریقے سے کر رہی ہیں) ایک منظم اور مربوط ڈھنگ سے ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہے نہ صرف نہتے کشمیری اس کی بدترین ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بن رہے ہیں بلکہ بھارت کی دیگر اقلیتیں خصوصاً مسلمان دہلی کی اس غیر انسانی روش کے ہاتھوں ایسا جیون بِتانے پر مجبور ہیں، جسے دیکھ کر زندگی بھی کچھ شرمندہ شرمندہ سی نظر آتی ہے۔ ان دنوں بھارت میں RSS کی قیادت میں مسلمانوں کی ’’مسلم شناخت‘‘ ختم کرنے کا ایک نکاتی ایجنڈا سر فہرست ہے اور الہٰ باد کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر خصوصاً جنونی ہندوئوں کی متعصب نگاہیں گڑی ہوئی ہیں۔ چند روز قبل علی گڑھ یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی سکالر ’’منان وانی‘‘ کے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی بربریت کی بھینٹ چڑھنے کے بعد یونیورسٹی کے سینکڑوں طالب علموں کو دہلی سرکار نے نوٹس جاری کیا کہ چونکہ انہوں نے یونیورسٹی میں ڈاکٹر منان وانی کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی اور ان کی مغفرت کی دعائیں مانگی گئیں۔ لٰہذا کیوں نہ اس ’’جرمِ عظیم‘‘ کی پاداش میں انہیں یونیورسٹی سے خارج کر دیا جائے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر یونیورسٹی میں آویزاں کرنے کے معاملے کو لے کر ایک تنازعہ کھڑا ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بانی پاکستان کی ایک تصویر کو ہٹائے جانے کے مطالبے کے دوران جھڑپ میں درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے۔ یونیورسٹی میں طلبہ کی تنظیم نے سابق نائب صدر ہند حامد انصاری کو تا حیات رکنیت دینے کے لیے تقریب کا انعقاد کیا تھا۔
حامد انصاری کی آمد سے پر ہندو یوا واہنی کے درجنوں افراد نے یونیورسٹی پر دھاوا بولا اور انتہائی اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے جن میں ’’اے ایم یو غدار غدار ، بھارت میں جناح کا سمّان (احترام) نہیں چلے گا ‘‘ اور ’’بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہے ‘‘ جیسے نعرے شامل تھے۔ خیال رہے کہ 1938 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سٹوڈنٹس یونین نے قائداعظم کو مدعو کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ اے ایم یو کی سٹوڈنٹ یونین نے اس سلسلے میں سب سے پہلے گاندھی کو سنہ 1920 میں مدعو کیا تھا اور انھیں لائف ممبرشپ عطا کی تھی۔ 1938 میں یونین نے قائداعظم کو لائف ممبر شپ دی تھی اور سٹوڈنٹ یونین ہی یہ فیصلہ لیتی ہے کہ کس کی تصویر لگنی ہے۔ یہ معلومات قارئین کے لئے یقینا دلچسپی کا سبب ہو گی کہ یونین نے اب تک 35 شخصیات کو لائف ممبرشپ دی ہے جن میں قائداعظم، گاندھی، دلائی لاما، خان عبدالغفار خان، سروجنی نائیڈو، کماری امرت کور، برطانوی مصنف ای ایم فاسٹر، مولانا آزاد، سی وی رمن، وی وی گری، سی راج گوپال اچاریہ، جواہر لعل نہرو، جمال عبدالناصر، بدرالدین طیب جی، جے پرکاش ناراین، کلدیپ نیر، مدر ٹریسا وغیرہ شامل ہیں۔
حامد انصاری 36 ویں شخصیت تھے جنھیں یہ رکنیت دی گئی ۔ خیال رہے کہ انڈیا میں ہندو تنظیمیں اس سے قبل دہلی کی جے این یو، حیدرآباد یونیورسٹی اور دہلی کے رام جس کالج کو نشانہ بنا چکی ہیں جبکہ علی گڑھ ان کے نشانے پر ایک عرصے سے رہا ہے۔ غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ وطن عزیز کے ناقدین کے ذہنوں میں بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی حالتِ زار کا سرسری سا احوال بھی پیشِ نظر رہے تو شاید کفرانِ نعمت کے مرتکب ان افراد اور گروہوں کی روش میں قدرے مثبت تبدیلی رونما ہو سکے کسے نہیں معلوم کہ بھارت کے جمہوریت اور سیکولر ازم کے تمام دعووں کے باوجود 20 کروڑ کے لگ بھگ ہندوستانی مسلمان آج بھی تیسرے درجے کے شہری ہیں۔کیونکہ بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی 94.9 فیصد خطِ افلاس سے نیچے اور شہری علاقوں میں 61.1 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
دیہی علاقوں کی 54.6 فیصد اور شہری علاقوں کی 60 فیصد نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔دیہی علاقوں میں مسلم آبادی کے 0.8 اور شہری علاقوں میں 3.1 مسلم گریجوئیٹ ہیں اور 1.2 پوسٹ گریجوئیٹ ہیں۔اگرچہ مغربی بنگال کی کل آبادی کا %25 مسلمان ہیں۔ مگر سرکاری نوکریوں میں یہ شرح محض 4.2 % ہے۔آسام میں یہ شرح 40 % مگر نوکریاں 11.2% ، کیرالا میں 20% آبادی کے پاس 10.4 فیصد سرکاری نوکری ہے ۔اس تصویر کا یہ رخ اور بھی بھیانک ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمان کل آبادی کا 10.6 فیصد ہیں مگر یہاں کی جیلوں میں موجود قیدیوں کا 32.4 فیصد حصہ مسلمان ہیں۔دہلی کی آبادی میں مسلمان 11.7 فیصد مگر جیلوں میں کل قیدیوں کا 27.9 فیصد،صوبہ گجرات کی جیلوں میں کل بند افراد کا 25.1 فیصد مسلمان ہے جبکہ آبادی میں یہ تناسب 9.1 فیصد ہے،کرناٹک کی جیلوں میں 17.5 فیصد مسلمان بند ہیں جبکہ آبادی میں یہ تناسب 12.23 فیصد ہے،مہاراشٹر کی جیلوں میں ایک برس سے زائد مدت سے قید افراد میں 40.6 مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ایسے میں وطنِ عزیز کے سبھی حلقوں کو بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار کو سامنے رکھنا چاہیے اور خود احتسابی اور خود مذمتی میں حائل بہ ظاہر معمولی لیکن در حقیقت انتہائی اہم فرق ملحوظ رکھا جائے کہ زندہ قوموں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ اس بابت اصل ذمہ داری مقتدر طبقات (بھلے ہی وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں)،سول سوسائٹی اور میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024