بہت سی خبریں میرے پاس جمع ہو گئی ہیں کہ ہر خبر پر کالم لکھا جا سکتا ہے۔ میںکچھ کوشش کرتا ہوںکہ انہیں ایک ہی کالم میں لا سکوں۔ شکر ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور آصفہ بھٹو زرداری بھی ہیں کہ کچھ یادیں بینظیربھٹو کے حوالے سے مل جاتی ہیں۔ میں بھٹو اور بینظیربھٹو کے ساتھ محبت کرنے والوں میں سے ہوں۔ جب وہ جلاوطنی میں تھیںاور برادرم سجادبخاری نے ان سے ٹیلیفون پر کہا کہ آپ کو سننے والوں میں اجمل نیازی بھی ہیں تو انہوں نے بے ساختگی سے کہا کہ کہاں ہے وہ ۔جیسے میں ان کے آس پاس کہیں ہوں۔ بختاور بھٹو زرداری کیلئے بھی اچھا تاثر میرے دل میں ہے۔ وہ میری بیٹی بھی ہے اور آصفہ بھی۔ ان کی سیاست میں شہید بی بی کی یاد ہے اور ’’صدر‘‘ زرداری کی آشیرباد بھی ہے۔ سانحہ کارساز کا دن بتاتے ہوئے فاتحہ خوانی کر رہا ہے اور آصفہ پھول چڑھا رہی ہے۔ اگروہاں مراد علی شاہ اور ’’صدر‘‘ زرداری بھی ہوتے تو اور بھی اچھا لگتا۔
صدر عارف علوی نے پانی کے بڑے ذخائر کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا ہے تو پھر شروع کرو‘ آپ پاکستان کے حکمران ہیں۔ صدر نے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے بھی زور دیا تو پھر زور لگائیں بھی۔ ہم تو صرف زورآزمائی کر سکتے ہیں۔
میرے پسندیدہ سیاستدان اور وفاقی وزیر غلام سرور خان نے کہا کہ اپوزیشن مہنگائی پر بھاشن نہ دے۔ ملک و قوم کیلئے جو حالات وہ چھوڑ کر گئے ہیں‘ انہیں شرمندگی کے مارے گھروں سے بھی نہیں نکلنا چاہئے۔ جب سیاستدان اقتدار میں نہیں ہوتے تو ان کا گھروں سے باہر نکلنے کو جی بھی نہیں چاہتا مگر سیاست تو آخر کرنا ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ملک میں تبدیلی کے نام پر تباہی ہورہی ہے۔ تباہی سے بڑی تبدیلی آخر کونسی تبدیلی ہے۔ یہی تبدیلی تمام سیاستدانوں کا اندرونی اور اصلی منشور ہے۔ مریم سے گزارش ہے کہ اس ’’تبدیلی‘‘ میں تمام سیاستدان برابر کے شریک ہیں۔ وہ کہتی ہیں گیس کی قیمتوں میں اضافہ عوام دشمن ہے۔ جب مریم کے لیڈروں کے دور میں مہنگائی ہوتی ہے تو وہ ’’عوام دوست‘‘ ہوتی ہے۔ مریم کے ساتھ اورنگزیب لکھنا پڑتا ہے ورنہ لوگ مریم نواز سمجھ لیتے ہیں۔
ایک بڑے لیڈر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ساٹھ روزہ کارکردگی کا حال یہ ہے کہ ہر چیز موجودہ حکومت کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے۔ پچھلی حکومت میں ہر چیز حکومت کے ہاتھوں میں جمع ہورہی تھی۔ لیاقت بلوچ نے یہ بھی کہا کہ عمران کی حکومت کو آٹے دال کا بھاؤ اقتدار میں آنے کے بعد معلوم ہو رہا ہے۔ لیاقت بلوچ کو معلوم ہے کہ ان کی جماعت اسلامی کبھی اقتدار میں نہیں آئی۔ کبھی تو ہو کہ جماعت اسلامی کو اقتدار مل جائے۔ کوئی حکومت تو ہو جو لوگوں میں آٹا‘ دال کی فراہمی آسان کرے۔
(ق) لیگ کے کامل علی آغا نے کہا ہے کہ حمزہ شہباز جیسے بچوں کی تربیت ہی نہیںہوئی۔ تربیت ٹھیک نہ ہو تو اس میں کسی کا قصور کیا ہے۔ حمزہ اپنی سیاست کے مطابق بول رہے ہیں۔ حمزہ کی یادداشت بھی کمزور ہے۔ایک دفعہ نامور وکیل اعجاز بٹالوی کے ذریعے چودھری پرویزالٰہی کو پیغام بھی دلوایا کہ ہماری ضمانت کروائیں۔
ایک ماہنامہ ’’پیام زینب‘‘ مجھے باقاعدگی سے ملتا ہے۔ یہ میرے میانوالی کا ایک خوبصورت مذہبی رسالہ ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے کربلا کے مناظر سامنے آجاتے ہیں۔ میں جب کربلا گیا اور روضہ امام حسینؑ کے سامنے کھڑا ہوا تو مجھے قربانی کے حقیقی معانی سمجھ میں آئے۔ وہاں بے شمار لوگ تھے جو ایک ساتھ مل کر رو رہے تھے۔ مل کر رونے کی کیفیت ہی کچھ اور ہے۔ اکیلے بیٹھ کر رونا بھی ایک عبادت ہے مگر سانجھی دردمندی ایک نعمت کی طرح ہے۔ ’’پیغام زینب‘‘ کے بانی سربراہ علامہ سیدافتخارحسین بخاری ہیں۔ مدیراعلیٰ سیدہ وجیہہ زہرا نقوی ہیں۔ کسی خاتون کی ادارت میں اتنا اچھا رسالہ میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ زہرا نقوی کے معاون مدیر صفدر حسین ڈوگر کربلائی ہیں۔ 25 سال سے اشاعت جاری ہے۔ جامعہ امام خمینی ماڑی انڈس پکی شاہ مردان میانوالی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ دانشور ادیب محکمہ اوقاف کے بڑے افسر زندہ قبروں کے خادم اور محافظ ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری نے ہجویر فائونڈیشن زیراہتمام ایک بہت بڑی اور رومانی کتاب بہت بڑی رومانی شخصیت حصرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے معارف کے حوالے سے لکھی ہے جس کیلئے میں تفصیلی بات کروں گا۔ فی الحال میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیرنیازی کے چند مصرعے ملاحظہ کریں؎
جیڑیاں تھانواں صوفیاں جا کے لیئاں مل
اوہ اوہناں دے در دی تاب نہ سکیاں جھل
اکو کوک فرید دی سُنجے کر گئی تھل
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024