سانحہ ماڈل ٹائون‘ سابق ایس ایچ او‘ 4 اہلکاروں سمیت 42 ملزموں پر فرد جرم عائد
لاہور (اپنے نامہ نگار سے+وقائع نگار خصوصی++خصوصی نامہ نگار) انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹائون کے 42 ملزموں پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے گواہوں کو طلب کرلیا ہے تاہم ملزموں نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزمان میں انسپکٹر عامر سلیم، سب انسپکٹر اطہر، کانسٹیبلان و دیگر ملزم شامل ہیں۔ پہلی ایف آئی آر کے حوالے سے کیس انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیرسماعت ہے۔ 42 ملزموں میں سے 35 ضمانت پر رہائی حاصل کر چکے ہیں۔ عدالت نے سماعت 22 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ دوسری جانب سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق عدالتی انکوائری کی رپورٹ منظرعام پر لانے کے کیس کی جلد سماعت کی درخواست ہائیکورٹ نے منظور کر لی۔ عدالت نے 2 نومبرکوفل بنچ کے سامنے کیس سماعت کیلئے فکس کرنے کی ہدایت کر دی۔ جسٹس خالد محمود خان نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں کئی افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کیا گیا۔ حکومت نے معاملے کی عدالتی انکوائری کرائی مگر آج تک ذمہ دار شخصیات اور افسروں کو بچانے کے لئے جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ کو دبا رکھا ہے۔ جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے لئے معاملہ عدالت عالیہ میں زیر سماعت ہے مگر اگست سے لے کر ابھی تک سماعت نہیں ہو سکی، عدالت جلد سماعت کرنے کے احکامات صادر کرے۔ عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نوازگنڈاپور نے فرد جرم عائد کیے جانے کے فیصلہ پر کہا ہے کہ 17 جون 2014 ء کے دن موجودہ حکمرانوں کے ایماء پر پنجاب پولیس نے ہمارے 14 بے گناہ کارکن قتل کیے اور ہمارے ہی 41 کارکنوں پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔ہمیں انصاف سے محروم کرنا ہمارے ساتھ ایک اور دہشتگردی اور بربریت ہے۔ مقتولین کی طرف سے درج ایف آئی آر کے مدعی جواد حامد نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بدنیتی کی بناء پر سانحہ ماڈل ٹائون پر جوڈیشل کمشن بنانے کا اعلان کیا۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے سارے حقائق جسٹس باقر نجفی کمشن کی رپورٹ میں موجود ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے رہنمائوں صاحبزادہ فیض الرحمن درانی، احمد نواز انجم، جی ایم ملک اور تنویر خان نے کہا کہ پنجاب کے حکمرانوں نے دو بار جعلی جے آئی ٹی بنا کر حقائق چھپانے کی کوشش کی۔