خوراک .... کثرت ‘ قلت اور ذلت
انسان کی خواہشات اور ضروریات میں خوراک سب سے بنیادی عنصر ہے، جیسے مشہور نعرہ ہے؛ ”روٹی، کپڑا اور مکان مانگتا ہے ہر انسان“۔ دور جدید میں بھی دنیا کا ہر ساتواں شخص غذائی قلت کا شکار ہے ۔ اس قلت کا سب سے زیادہ سامنا حسب توقع ترقی پذیر ممالک کو ہے اور بھارت ان میں سرِ فہرست ہے۔ برطانوی یونیورسٹی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں 40 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو بمشکل ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ کبھی سب سے زیادہ بھوک کا شکار چین ہواکرتا تھایہاں یہ مشہور تھا ”جب دو چینی آپس میں ملتے تو حال احوال پوچھنے کے بجائے کہتے ”کیا تم نے کھانا کھا لیا“ چین نے 1979ءسے ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی ہی نہیں قانون کو اپنایا اور اپنی دیگر ترقیاتی کوششوں سے آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور خوشحال ملک ہے مگر انڈیا اپنے علاقائی چوہدری بننے کے خواب کے تحت جنگی جنون میں مبتلا اورغذا سے محروم دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی کی حقیقت سے مجرمانہ طور پر غافل ہے۔ ایک عام آدمی کو اوسطاً 2500 جبکہ کسان، مزدور اور حاملہ عورت کو فی کس اضافی 300کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے مگربدقسمتی سے یہ تینوں طبقے ہی غذائی قلت کا زیادہ شکار ہیں بالخصوص مزدور اور ترقی پذیر ممالک کی حاملہ خواتین۔ غذا ئی قلت دو طرح کی ہوتی ہے؛ اگر آپ کو روزانہ مطلوبہ غذا کی مقدار نہیں ملتی تو اسے Under Nutrition کہتے ہیں اور اگر آپ کی غذا مسلسل ایک ہی چیز ہے جیسے صرف روٹی تو اسے غیر متوازن خوراک Mal Nutrition کہا جاتاہے۔جیسے ایک غریب آدمی سے پوچھا جائے صبح اور شام کے کھانے میں کیا کھایا تو وہ جواب دیتا ہے” صبح آلو مٹر ،شام کو مٹر آلو“ اس قسم کی غذائی نقص کا سامناعموماً دیہی آبادی کو ہوتا ہے۔
دنیا کی آبادی 1930ءسے 1975ءکے درمیان بڑی تیزی سے بڑھ کردُگنا یعنی دو سے چار ارب ہوئی تو سائنسدانوں نے ایسا بیج ایجاد کیا جو فی ایکڑ دُگنا سے زیادہ پیداوار دینے لگ گیا اسی طرح مصنوعی کھاد کا استعمال شروع ہوا، گوشت کی کمی پوری کرنے کے لئے پولٹری فارمنگ شروع کی گئی اور تقریباً 6ہفتوں میں مرغ تیار کیا گیا۔ مگر غذائی ماہرین اس خوراک کو مصنوعی خوراک کے مترادف سمجھتے ہیں کیونکہ اس طرح پیدا ہونے والی خوراک ذائقے اور غذائیت کے اعتبار سے قدرتی غذا Organic Food کا مقابلہ نہیں کر سکتی مگر دنیا کی آبادی میں تیز اضافے کی وجہ سے مصنوعی خوراک کی پیداوار پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ غذائی قلت میں ایک بھیانک کمی پانی کی شکل میں نمودار ہو چکی ہے۔ جی ہاں! پانی غذائی قلت اور ناقص غذا کی بڑی وجہ بن چکا ہے۔فصلوں کی آبیاری کے لئے پانی آلودہ ہو گا تو پیدا ہونے والی خوراک بھی ناقص ہوگی، اسی طرح پینے کے لئے پانی میسر نہ ہونا اور اگر میسر ہے تو اس پانی کا آلودہ یاغیر معیاری ہونا ہے۔ پاکستان اس سلسلے میں خطرناک حد تک پانی کے کمی کے شکار ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ پانی کی قلت کو سمجھنا ہو تو کراچی کی صورت حال کو ذہن میں لے آئیں ، غذائی قلت کو سمجھنا ہو تو گدھوں کے گوشت کو (متلی والی کیفیت پیدا ہوئے بغیر) ذہن میں لے آئیں تو غذائی قلت سمجھ میں آ جائے گی۔
دوسری طرف اگر ترقی یافتہ ممالک جیسے یورپ اور امریکہ کو دیکھا جائے تو آپ کو حیرانی ہو گی کہ وہاں اکثر لوگ زیادہ کھانے (over eating) کا شکار ہوتے ہیں۔ان ممالک میں زیادہ تر لوگ over eating کی وجہ سے بیماریوں اور اموات کا شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں امیر لوگ اسی المیہ کا شکار ہیں بالخصوص شہری آبادی میں یہ تعداد زیادہ خطرناک حقیقت ہے۔ دنیا میں ایک طرف لوگ بھوک سے مرتے ہیں دوسری طرف ضرورت سے زیادہ کھانے سے موت کی دہلیز پار کر جاتے ہیں۔
خوراک کے عالمی ادارے کی ریسرچ کے مطابق سالانہ 25 سے 30 فیصد غذا ضائع ہو جاتی ہے۔ یہ ضیاع شادی اور دیگر تقریبات کے دوران شادی ہالوں اور ہوٹلوں میں ہوتا ہے گویا دنیا میں غذا کی قلت کی ایک وجہ کھانا کھانے کے طریقے سے منسلک ہے۔ آپ خود سوچیں جو لوگ ضرورت سے زیادہ کھاکرموت کے منہ میں جاتے اورتقریبات میں کھانا ضائع کرتے ہیں اگروہ اس پر کنٹرول کر کے یہ خوراک غریبوں تک پہنچانے کا اہتمام کردیںتو خوش خوراک افرادبیماریوں سے محفوظ اوربے موت مرنے بچ سکتے ہیںاور تقریبات کا انعقاد کرنے والوں کی بچت ہوسکتی ہے اور غریب بھوک اور بیماریوں کی زد سے محفوظ رہ سکیں گے۔اس سے کافی حد تک غذائی قلت پر قابوپایا سکتا ہے۔ ایک حکیم سے پوچھا گیا کہ انسان کو کھانے میںکیا کھانا چا ہیے تو اس نے کہا....” امیر کو جب بھوک لگی ہو اور جو اس کادل چاہے،غریب کو جو مل جائے اور جب مل جائے“کیونکہ کثرت اور قلت دونوں ذلت کا باعث بنتے ہیں۔