گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصا ف کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں اکثریت حاصل ہوئی تو ہمارے دل میں خوشیاں رقص کرنے لگیں،عرصہ دراز کے بعد اس صوبے نے خان عبدالغفار خان اور مفتی محمود کے وراثتی سیاست دانوں کی گرفت سے آزادی حاصل کی تھی۔ پوری انتخابی مہم میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کسی صوبائی مجبوری سے بالاتر ہوکرنئے پاکستان کا نعرہ بلند کرتے رہے تھے۔ ہماری خوشی کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ خان عبدالغفار خاں عرف سرحدی گاندھی تحریک پاکستان کے مخالف تھے ۔ ان کی وصیت تھی کہ بعداز مرگ بھی انہیں پاکستانی کسی سٹی میں سپرد خاک نہ کیا جائے۔ لہذا وفات کے بعد انہیں افغانستان میں دفن کیاگیا۔ مولانا مفتی محمود بھی کانگریس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا ایک جملہ تو پورے پاکستا ن میں مشہور تھا۔ انہوں نے ببانگ دہل یہ”فرمایا“تھا کہ خدا کا شکر ہے میں پاکستان بنانے کے جرم میں شریک نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اسی مجرم بھینس کا سیاسی دودھ ان دونوں خاندانوں نے عرصہ دراز تک پیا لیکن اس دودھ نے ان کی سوچ میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں اوروہ ابھی تک اس موقف پر قائم ہیں کہ ان کے بزرگ جو کہتے تھے درست کہتے تھے۔....ع
حیران ہیں دل کو روئیں کہ پیٹیں جگرکو ہم
ہماری خوشی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ عمران خان اپنی تقاریر کی روشنی میں صوبائی تعصب کے بغیر پورے پاکستان میں ترقی، خوشحالی اور معاشی انقلاب کے نعرے لگا رہے تھے۔ تحریک انصاف کو صوبہ خیبر پی کے میں حکومت بنانے کا حق حاصل ہوا۔ تو ہمیں یہ سوچ کر اطمینان ہوا کہ نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگانے والے کالا باغ ڈیم کی افادیت کو تسلیم کریں گے کیونکہ کالا باغ ڈیم نئے پاکستان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے۔ اگر یہ ڈیم بن جائے تو ہر سال صوبوں میں تباہی مچانے والے سیلابوں کا راستہ بھی رک سکتا ہے اور بجلی کے مسلسل بحران سے بھی ہمیشہ کیلئے پاکستانی عوام کی جان چھوٹ سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس وقت جو بجلی بیس سے پچیس روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے۔ وہ دو روپے یونٹ کے حساب سے ملنے لگے گی۔ بجلی ناقابل برداشت بلوں سے عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔ کارخانوں میں تیار ہونے والی عوامی ضرورت کی اشیاءکی قیمتیں بھی نیچے آجائیں گی اور چاروں صوبوں میں زراعت کی ترقی کیلئے زائد ازحصہ پانی بھی دستیاب ہوگا۔ کالاباغ ڈیم کا سب سے زیادہ فائدہ صوبہ سندھ اور صوبہ خیبر پختونخواہ کو ہوگا پھر بلوچستان اور پنجاب کا نمبر آتا ہے۔ خیبر پختونخواہ صوبہ کے اضلاع ٹانک،کرک،لکی مروت،بنوںاور ڈیرہ اسماعیل خان لاکھوں ایکٹربنجر اراضی سرسز زرعی اراضی میں تبدیل ہو جائے گی اور یہ صوبہ زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو جائے گا۔ اسی طرح صوبہ سندھ کی لاکھوں ایکڑ بنجر اراضی نہ صرف یہ کہ قابل کاشت ہوجائے گی بلکہ سندھ میں ہرسال سیلاب سے ہونے والی بڑی تباہی بھی ٹل جائے گی اور اس صوبے کو ملنے والا پانی کا حصہ بھی بیس فیصد سے زیادہ بڑھ جائے گا۔ صوبہ پنجاب کی طرف سے یہ پیش کش بھی ہو چکی ہے کہ کالا باغ ڈیم کے تمام معاملات کا نگران صوبہ سندھ بن سکتا ہے۔ اسی طرح صوبہ بلوچستان کے سالانہ پانی کے حصہ میں خاطر خواہ اضافہ یقینی ہے ۔ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان اور چاروں صوبوں کی خوشحالی کے اس ارزاں ترین منصوبے کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہورہاہے۔ یہ خبر بھی تصدیق شدہ ہے کہ بھارت کالاباغ ڈیم کی تعمیر رکوانے اور صوبائی مخالفت کو پروان چڑھانے کیلئے برسوں سے ہرسال اربوں روپے کا خفیہ فنڈ صوبہ سندھ میں خرچ کررہا ہے اور اب تو سندھ کی ایک سیاسی جماعت کے بھارتی خفیہ ایجنسی”را“ سے اندر کھاتے روابط کی تصدیق بھی ہوچکی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں ہر پاکستانی سوچ رہا ہے کہ ....ع
یہ وفا ہے کہ بے وفائی ہے
بات تحریک انصاف سے شروع ہوئی تھی،کہاں سے کہاں نکلی جا رہی ہے ۔ عمران خان نے عام انتخابات کے دوران ایک تقریر میں کالا باغ ڈیم کی حمایت کی تھی لیکن ایک دو دن بعد ہی اس حمایت کو چاروں صوبوں کی حمایت سے مشروط کردیا۔ 17اکتوبر کو ان کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک نے ایک دوغلا بیان داغا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم پر انکی پارٹی کا موقف ہے کہ چاروں صوبوں کا اتفاق رائے حاصل کرنے کیلئے کمشن بنایا جائے اور اس کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے مجھے ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ اس ڈیم سے نوشہرہ،چارسدہ،صوابی کے اضلاع اور پشاور کا کچھ حصہ متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ گزارش ہے کہ عمران خان اور پرویز خٹک کسی نئی بیان بازی سے قبل اپنے ہی صوبہ سے تعلق رکھنے والے ماہر آبیات جناب شمس الملک کا کتابچہ بعنوان”سچ کا قحط“ پڑھ لیں۔ اس میں”نوشہرہ وغیرہ ڈوب جانے کا جھوٹ“ اور”سندھ بنجر ہونے کا جھوٹ“کے زیر عنوان تمام افواہوں کو اعدادوشمار اور حقائق بیانی سے غلط ثابت کیا گیا ہے ۔ اس کتابچے میں ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی ہے جس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں تیز رفتار معاشی اور زرعی ترقی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر ممکن نہیں۔ عمران خان اور پرویز خٹک کو چاہئے کہ وہ حقائق کا ادراک کریں اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر کالا باغ ڈیم کی حمایت کریں،یہ ڈیم”نئے پاکستان“ کی بنیاد ثابت ہوگا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024