کوئٹہ میں مسافر بس کے اندر سفاکانہ دہشتگردی‘ عاشورہ محرم کے دوران فرقہ ورانہ کشیدگی بڑھانے کی سازش
کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر مسافر بس کے اندر بم دھماکے میں گزشتہ روز گیارہ افراد جاں بحق اور 23 زخمی ہوگئے۔ متعدد زخمیوں کی حالت نازک بیان کی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق دھماکہ خیز مواد بس کی چھت پر رکھا گیا تھا جس کا ٹائم ڈیوائس کے ذریعے دھماکہ کیا گیا۔ اسکے پھٹنے سے بس مکمل تباہ ہو گئی اور ہر طرف چیخ و پکار شروع ہو گئی جبکہ دھماکے سے قریبی عمارتوں اور گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ میڈیا اور سکیورٹی ذرائع کے مطابق دھماکے سے تباہ ہونیوالی بس پیر کی شب ساڑھے آٹھ بجے جناح روڈ سے 70 مسافروں کو لے کر ہزار گنجی روانہ ہوئی جس کی چھت پر بھی 20 سے زائد مسافر سوار تھے۔ یہ بس جیسے ہی سریاب روڈ پر فلائی اوور کے قریب پہنچی تو اس میں زوردار دھماکہ ہو گیا جس کی شہر بھر میں آواز سنی گئی جبکہ دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے بس کے اندر آگ لگ گئی اور زیادہ تر مسافر جھلس کر ہلاک اور زخمی ہوئے۔ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی اور وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے اس دھماکے کو دہشت گردی کی بدترین کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک دشمن عناصر اپنی مذموم کارروائیوں کے ذریعے صوبے میں امن و امان کی صورتحال ایک بار پھر خراب کرنا چاہتے ہیں تاہم ایسی سازشوں کو ناکام بنادیا جائیگا اور انسانی جانوں سے کھیلنے والے عناصر کو سختی سے کچل دیا جائیگا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے دہشت گردی کی اس واردات کے بعد آئی جی پولیس اور سیکرٹری داخلہ سے مسلسل رابطہ رکھا اور وہ صورتحال کی مانیٹرنگ بھی کرتے رہے۔ انہوں نے شہر میں حفاظتی اقدامات مزید مؤثر بنانے کی ہدایت کی اور کہا کہ بالخصوص محرم الحرام کے دوران امن و امان کی صورتحال ہر صورت بہتر بنائی جائے۔
مقدس مہینے محرم الحرام اور عاشورۂ محرم کے آغاز سے ایک روز قبل تونسہ شریف میں حکمران مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے سردار امجد فاروق کھوسہ کے ڈیرے پر خودکش حملہ جس میں سات افراد جاں بحق ہوئے‘ درحقیقت دہشت گردوں کی جانب سے اسلامیانِ پاکستان کو یہ مقدس مہینہ آرام و سکون سے نہ گزارنے دینے کا پیغام تھا اس لئے حکومتی سکیورٹی ایجنسیوں کو عاشورہ محرم کے آغاز ہی میں بالخصوص حساس علاقوں میں الرٹ ہو جانا چاہیے تھا اور سکیورٹی کے انتظامات پر مکمل چیک اور کنٹرول رکھنا چاہیے تھا تاکہ ملک کی سلامتی کے درپے دہشت گرد عناصر کو اپنی جنونی وارداتوں کے ذریعے ملک کے امن و سلامتی سے کھیلنے اور کسی قسم کی فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا کرنے کا موقع نہ ملے۔ ان عناصر کو چونکہ کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں آباد ہزارہ کمیونٹی کیخلاف دہشت گردی کے ذریعے فرقہ ورانہ کشیدگی بڑھانے کا آسان موقع مل جاتا ہے اس لئے ہمارے سکیورٹی اداروں کو عاشورہ محرم کے دوران اس کمیونٹی اور انکی عبادت گاہوں کے تحفظ کا فول پروف انتظام کرنا چاہیے تاکہ ملک کے امن و سلامتی کے درپے بدبخت عناصر کو ان کیخلاف دہشت گردی کیلئے کسی قسم کے سکیورٹی لیپس سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ مگر گزشتہ روز کی سفاکانہ دہشت گردی سے بادی النظر میں یہی محسوس ہورہا ہے کہ بلوچستان میں قیام امن کی ذمہ داریاں نبھانے والی ایف سی اور دوسری سکیورٹی ایجنسیوں کو ماہ محرم کے دوران دہشت گردی کے منصوبوں کی اطلاعات ملنے کے باوجود سکیورٹی کے انتظامات بہتر کرنے کا احساس نہیں ہوا جس سے دہشت گردوں کو گزشتہ روز کے بس دھماکے کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا آسان موقع میسر آیا اور انہوں نے ٹائم ڈیوائس کے ذریعے چلتی بس کے اندر دھماکہ کرکے بے گناہ انسانوں کے خون ناحق سے ہاتھ رنگے اور اپنے سفلی جذبات کی تسکین کی۔ بلوچستان میں بدقسمتی سے جرنیلی آمر مشرف کے دور سے ہی امن و امان کی صورتحال خراب ہے جس پر آج تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو تو بلوچستان میں پے درپے دہشت گردی کی وارداتوں کے باعث اپنے اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے مگر اسکے بعد بلوچستان میں گورنر راج کے دوران بھی اور اب گزشتہ اڑھائی سال سے جاری ڈاکٹر عبدالمالک کی قومی اتفاق رائے کی حامل حکومت کے دوران بھی امن و امان کی صورتحال مخدوش ہی نظر آتی ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے ایف سی کی جانب سے مسلسل دعویٰ کیا جارہا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں‘ انتہاء پسند عناصر اور علیحدگی کی تحریک چلانے والے بلوچ قوم پرستوں کیخلاف ایکشن لے کر امن و سلامتی سے کھیلنے سے متعلق انکے عزائم کا تدارک کرلیا گیا ہے جبکہ ناراض بلوچ قوم پرستوں کو سیاست کے قومی دھارے میں لایا جارہا ہے جو ہتھیار پھینک کر علیحدگی کی تحریک سے کنارہ کشی اور پاکستان کے ساتھ وابستگی کا اعلان کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر ثناء اللہ زہری نے بھی ناراض بلوچوں کو سیاست کے قومی دھارے میں لانے کیلئے کاوشیں کیں اور ان کاوشوں میں کامیابی کے انکی جانب سے اعلانات بھی سامنے آتے رہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنیوالے ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کو بھی یقیناً بلوچستان میں امن کی بحالی سے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشیں ناکام ہوتی نظر آئی ہونگی اس لئے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کی جانب سے بلوچستان میں سازشوں کے نئے جال بچھانا بعیداز قیاس نہیں تھا جبکہ ماہ محرم الحرام کے دوران ایسی سازشوں کو عملی جامہ پہنانا نسبتاً زیادہ آسان ہوتا ہے کیونکہ ایسی سازشوں کے تحت عاشورہ محرم کے دوران ایک دوسرے کے مخالف مذہبی جذبات رکھنے والی کمیونٹیز میں سے کسی ایک کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا کر فرقہ ورانہ کشیدگی بڑھانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اس تناظر میں بلوچستان میں فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی فضا استوار کرنا اور سکیورٹی کے انتظامات کو فول پروف بنانا بلوچستان حکومت ہی نہیں‘ ایف سی کی بھی اتنی ہی ذمہ داری تھی جسے بلوچستان میں قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے ہی بلوچستان میں ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جو گزشتہ کم و بیش دس سال سے یہ ذمہ داریاں ادا بھی کر رہی ہیں۔ اسکے باوجود دہشت گردوں کو گزشتہ روز ایک مسافر بس میں دہشت گردی کے ذریعے اپنی جنونیت کو تسکین پہنچانے کا موقع ملا ہے تو اس پر محض افسوس کا اظہار اور دہشت گردوں کی مذمت ہی کافی نہیں۔ عاشورۂ محرم ابھی جاری ہے اس لئے بلوچستان ہی نہیں‘ ملک کے دوسرے حساس علاقوں میں بھی سکیورٹی ایجنسیوں کو دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملانے کیلئے ہمہ وقت مستعد و چوکس رہنا اور سکیورٹی انتظامات میں موجود کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا۔
دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں ہماری سکیورٹی فورسز کو بے شک نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں اور اپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں کو جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنا پڑ رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی لورالائی میں بارودی سرنگ پھٹنے سے دو ایف سی اہلکار شہید ہوئے ہیں۔ ان قربانیوں کے عوض سکیورٹی فورسز کو حاصل ہونیوالی کامرانیوں سے قوم کو یہ توقعات بھی وابستہ ہوئی ہیں کہ اب دہشت گردوں کو نکیل ڈال کر ملک میں مستقل قیام امن اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کا خواب شرمندۂ تعبیر کردیا جائیگا تاہم کوئٹہ میں ہونیوالی گزشتہ روز کی دہشتگردی ملک کی سلامتی کیخلاف سرگرم عمل دہشت گردوں کے بھی فعال ہونے کی عکاسی کرتی ہے اس لئے اس سفاکانہ واردات کے بعد اب دہشت گردوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا مزید موقع فراہم نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ بالخصوص تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں مذہبی رواداری کی فضا مستحکم بنانے کیلئے اپنا مؤثر کردار بروئے کار لائیں اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو فروغ دیں تاکہ ملک دشمن عناصر کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے ہماری مذہبی کمزوریوں سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔