پاکستان میں جس طرح داخلی طور پر خطہ کی صورتحال کے پیش نظر جن حالات کا شکار ہے ان سے نمٹنے کیلئے حکومت اور فوج میں ہم آہنگی کا فقدان رہا ہے اور دونوں جانب یہ احساس کہ وہ ہی درست ہیں ذہنی فاصلوں کو جنم دیتا رہا۔ ذولفقار علی بھٹو نے فوج کو قابو میں رکھنے کیلئے کئی سینئر جرنیلوں کی حق تلفی کر کے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا، بے نظیر بھٹو نے آئی ایس آئی کو قابو میں رکھنے کیلئے اپنی مرضی کے ایک ریٹائرڈ جنرل کو اس کا سر براہ بنا دیا۔ آصف زرداری نے آئی ایس آئی کو رحمان ملک کے ماتحت کرنے کی کوشش کی۔
میاں نواز شریف نے پہلی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد دفاع کے وزیر مملکت ملک نعیم کے ذریعہ یہ حکم جاری کرایا کہ فوج اپنے اخراجات کا حساب قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ میں پیش کرے۔ جواب ملا کہ فوج کا اپنا آڈٹ کا نظام ہے، جنرل جہانگیر کرامت سے استعفیٰ طلب کیا گیا، جنرل آصف نواز اور جنرل وحید کاکڑ سے بھی تعلقات زیادہ بہتر نہ رہے اور عراق پر امریکی حملے کے حوالے سے جنرل اسلم بیگ کا اختلافی مئوقف تو کھل کر سامنے آ گیا۔ جنرل پرویز مشرف کو اس سوچ کے ساتھ آرمی چیف بنایا گیا کہ برادری نہیں رکھتا تابع فرمان بن کر رہے گا۔ اس تاریخی پس منظر پیش نظریہ خدشہ بجا تھا کہ شاید میاں نواز شریف فوج کے ساتھ ہم آہنگی کی منزل پر نہ پہنچ سکیں اور یہ خدشہ کچھ ایسا خلاف حقیقت بھی نہیں تھا کہ جنوبی و شمالی وزیرستان میں کارروائی کراچی، آپریشن اور بالخصوص مالیاتی دہشت گردی کیخلاف اقدامات کے حوالے سے وہ فوج کے ساتھ واضح طو پر ایک صفحے پر محسوس نہیں ہو سکے اور اسے انکی وضع داری کا نام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آصف زرداری اور انکے ساتھیوں کی کرپشن کیخلاف کارروائی کے حوالے سے انہیں اتنا پر جوش محسوس نہیں کیا جا رہا جتنا عوامی سطح پر توقعات ہیں اور انکی اس عدم گرم جوشی کے ڈانڈے نندی پور پاور پراجیکٹس، میٹرو بس سروس اور بعض وزراء کی کرپشن کیساتھ جوڑے جارہے ہیں کہ ’’مالیاتی دہشتگردی‘‘ یا کرپشن کیخلاف کارروائی کا دائرہ وسیع ہوا تو یہ انکے قرابت داروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے انکی اس عدم گرمجوشی کے باوجود آصف زرداری کا یہ کہہ اٹھنا ’’یہ تو لمبا لیٹ گیا ہے مروادیگا‘‘ احتساب کے پنجے گردن کے نزدیک پہنچنے کے احساس سے پیداشدہ گھبراہٹ کا اظہار ہے ورنہ شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ نوازشریف انکی ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کے راگ میں اپنی لَے بھی شامل کردینگے ۔
ادھر پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اپنے خلاف آپریشن کی شروعات اور تحریک انصاف سیاسی عناد میں یہ طوفان اٹھائے ہوئے ہیں کہ دہشتگردی اور مالیاتی دہشتگردی کیخلاف آپریشن صرف سندھ میں کیوں، پنجاب میں کیوں نہیں اور ’’پنجاب میں کیوں نہیں‘‘ اگر فوج کے اندر یہ سوچ پیدا کردے، اس طرح اس کیخلاف جانبداری کا الزام لگ رہا ہے اور اس الزام کو دھونے کیلئے جلد ہی پنجاب میں آپریشن کا آغاز غیر متوقع نہیں ہے ۔ اس حوالے سے اگر یہ سمجھا جائے کہ وزیراعظم دوراہے پر ہیں امریکہ سے واپسی کے فوراً بعد انہیں جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ان میں سب سے پہلے تو یہ وہ خود کو امریکی دبائو سے کس حد تک آزاد رکھ سکیں گے۔ پاکستان کے موقف کو کس بہتر انداز میں پیش کرسکیں گے اس حوالے سے وہ ملک کی عسکری سوچ سے خود کو ہم آہنگ کرسکیں گے یا نہیں اس سلسلے میں بہتر اور مطلوبہ کارکردگی انکے اقتدار کے دوام کا باعث ہوگی دوسرا مسئلہ پنجاب میں مالیاتی کرپشن اور انکے وزراء کیخلاف کارروائی ہے جو انکی اصل آزمائش بھی ہے مگر اس آزمائش سے گزرے بغیر چارہ نہیں ہے یہ بہت فیصلہ کن مرحلہ ہوگا اقتدار یا قرابت داروں کیخلاف کارروائی کی ٹھنڈے پیٹوں برداشت‘ البتہ خارجی معاملات میں فوج کیساتھ کافی حد تک ہم آہنگی کے شواہد ہیں۔ لگتا ہے روس کے شہر اوفا میں بھارتیوں نے مکاری سے جو علامیہ جاری کروالیا تھا اسکے پیش نظر انہیں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ قومی سلامتی کا ایسا مشیر ضروری ہے جو نہ صرف قومی سلامتی کی پیشہ ورانہ ضروریات بلکہ دشمن یا فریق مخالف کی چالوں اور زمینی حقائق سے بھی آگاہ ہو‘لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کی بطور مشیر قومی سلامتی تقرری اسی اہم ضرورت کے پیش نظر ہے۔
وزیراعظم کے دورہ کے بعد جس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جائیگا وہ بلوچستان میں ’’ را‘‘ کی سازشوں کو کافی حد تک ناکام بنا کر امن کی بحالی میں کردار ادا کرچکے ہیں۔ وہ افغانستان اور بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کیخلاف جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ کئی مواقع پر یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ بھارت میں ’’را‘‘کا سابق سربراہ اجیت دودل اب نیشنل سکیورٹی کا ایڈوائزر ہے جو دہشت گردانہ ذہنیت رکھنے کیساتھ ساتھ انتہائی شاطر بھی ہے اور اس لحاظ سے پیشہ ورانہ طور پر مقابلہ کیلئے سول حکومت خاصی کمزور ہے۔ جنرل ناصر جنجوعہ بھارتی دہشیگردی کے تمام پہلوئوں سے ذاتی طور پر مکمل آگاہی رکھتے ہیں اس لئے وہ اجیت دودل جیسوں کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔
نوازشریف حکومت کی جانب سے خیر سگالی کو کمزوری سمجھا گیا ہے امریکہ کی مسلسل پشت پناہی نے اسے اور زیادہ خودسر بنا دیا ہے۔ کرکٹ کے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے نیچے لگنے کے جس گھٹیا انداز کا مظاہرہ کیا گیا اس پر ملک بھرمیں کراہت محسوس کی جارہی ہے۔ بھارت سے کرکٹ نہ کھیل کر آخر کون سی قیامت ٹوٹ پڑیگی۔ بھارتیوں کی جانب سے مسلسل انکار کی ذلت کے باوجود آخر شہریار اور نجم سیٹھی پر کون سی آفت ٹوٹی ہوئی ہے‘ ممبئی بات چیت ممکن نہ ہوئی تو نئی دہلی میں منت ترلے کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ یہ تو ایک خاص سمت سے شٹ اپ کال تھی کہ واپس آرہے ہیں۔ اس حوالے سے شیخ رشید کا یہ بیان اگرچہ سخت ہے مگر قوم کے جذبات کا حقیقی عکاس ہے کہ ’’واپس آنے پر شہریار کے منہ پر کالک مل دی جائے‘‘ ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024