جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں لوگوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔ اگر اس ’’پرانے یونانی فلسفے‘‘ کو ہی پیمانہ مان لیا جائے تو ہمارے اوپر یہ حقیقت عیاںہوتی ہے کہ اکثریت کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ گذشتہ سال جنوری اور رواں سال 65دن تک مسلسل دھرنے دیکر نہ صرف عالمی ریکارڈ قائم کیا گیابلکہ پاکستان کی ایک خاموش اکثریت کو اپنی رائے کے اظہار کی ترغیب بھی ملتی رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ایسے کئی دانشور مل جائینگے جو اب بھی بضد ہیں کہ عددی اکثریت ثابت کرنے کیلئے پارلیمنٹ ہی سب سے مقدم پلیٹ فارم ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پارلیمنٹیرین کو چننے کیلئے افراد کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ایسے کئی سوالات کا جواب دیتے ہوئے مجھے یہ کہنا پڑتاہے کہ گزشتہ تین مہینوں میں ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے یہ ثابت کیا ہے کہ عوام کی ایک بھاری اکثریت انکے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں سیاسی جلسوں نے جو پذیرائی حاصل کی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ وزیراعظم محترم نوازشریف صاحب نے چند روز پہلے اپنے ایک خطاب کے دوران فرمایا تھا کہ عمران خان ایک کروڑ تیس لاکھ سپوٹرز اکٹھے کر لیں تو وہ مستعفی ہونے کو تیار ہیں۔ میاں صاحب کی بات کو من و عن تسلیم بھی کر لیا جائے تو میاں صاحب کو پڑنے والے مذکورہ بالا ووٹ کسی ایک بیلٹ باکس سے برآمد نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کیلئے یہ مشکل عمل ہے کہ وہ ایک جگہ ڈیڑھ کروڑ عوام کو اکٹھا کرکے دکھا سکیں۔کراچی میں ہونیوالے بلاول زرداری کے جلسے میں چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے ایک مہینے تگ ودوکے بعد غیرجانبدارانہ تجزیئے اور سروے کے مطابق 80ہزار سے 90ہزار لوگوں کو اکٹھا کیا جا سکا اور اس مقصد کیلئے متعدد خصوصی ٹرینیں چلائیں گئیں۔ پورے سندھ سے پبلک ٹرانسپورٹ کو تحویل میں لے کر جلسہ سروس کے لیے مختص کر دیا گیا۔ جبکہ سکولوں اور سرکاری اداروں میں اس دن عام تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ مگر 18تاریخ کو ہونیوالے جلسے کے مثبت نتائج برآمد ہونے کی بجائے جلسہ کے اختتام کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ایسے منفی اثرات برآمد ہوئے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی اتحادی ایم کیو ایم نے ایک دفعہ پھر پی پی پی سے اپنے راستے جدا کر لیے ہیں۔ دراصل ایک تو بلاول زرداری کی چومکھی لڑائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بلاول کا باپ آصف علی زرداری سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری سے تعزیت کرنے کی بجائے رائے ونڈ جا کر نوازشریف اور شہبازشریف کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں جبکہ بلاول زرداری اپنے تایا نوازشریف کو ایسا شیر قرار دیتا ہے جو نیویارک سے واپسی پر بھیگی بلی بن گیا اور بلاول اپنے چاچا شہبازشریف کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ درجنوں انسانوں کا قاتل ہے جبکہ بلاول کا ایک اور انکل رحمان ملک ہر وقت معافیاں مانگنے اور صلح کروانے کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ پچھلے 7سال میں رحمان ملک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے بوتل سے باہر نکلے ہوئے جن کو بار بار بوتل میں واپس بند کرنے میں کامیاب ہوئے۔میرے ایک دوست بیرسٹر فیصل حمید کہہ رہے تھے کہ پچھلے سات سال تو آصف علی زرداری اور بلاول سمیت پوری پیپلزپارٹی کو یوم سانحہ کارساز منانے کا خیال نہ آیا۔ سات سال مسلسل اقتدار کے ثمرات سمیٹتے ہوئے اپنی تجوریاں بھرتے رہے اور جب عوام اور کارکنوں نے انکو مستر دکرنااور نانی یاددلانی شروع کر دی تو ان کو ’’اماں‘‘ یاد آ گئی ۔ پیپلزپارٹی کے جیالے اس بات پر بھی کنفیوز ہیں کہ پیپلزپارٹی پنجاب کو تقسیم کرکے متعدد نئے صوبے بنانے کیلئے تو بے چین ہے اور خیبرپختونخواہ جیسے پہلے ہی مختصر صوبہ کو مزید تقسیم کرنے کے بھی حق میں ہے اور جب سندھ کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ پیپلزپارٹی کو گذشتہ الیکشن میں عبرت ناک شکست اس بات کی غماز ہے کہ پنجاب کے غیور عوام کو یہ ادراک ہو گیا ہے کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت انہیں ’’ٹشوپیپر‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی جبکہ اربن سندھ کے اردو سپیکنگ عوام نے کھل کر اپنے عزائم کا اظہار کر دیا ہے ۔ کراچی جیسا معاشی ہب سندھ سے علیحدہ صوبہ بنا دیا گیا تو سندھی وڈیرے اور جاگیردار کے پاس پھر سے اپنا آبائی پیشہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ جھورا جہاز کہہ رہا تھا کہ کراچی کے الگ صوبہ بننے سے سندھی قوم پرست اور جاگیردار پھر سے چوروں لٹیروں اور ڈاکوئوں کی سرپرستی شروع کر دینگے اور یہ واحد انڈسٹری ہے جس کی اندرون سندھ بہت ڈیمانڈ ہے۔ کراچی کے جلسے میں سینیٹر اعتزاز احسن نے تجویز پیش کی کہ عمر رسیدہ قائدین کو اب آرام کی ضرورت ہے اور پارٹی میں نیا خون شامل کرنا چاہیے مگر کیا کیا جائے کہ پچھلے سات سالوں میں پیپلزپارٹی نے عوام کی رگوں میں خون تو چھوڑا ہی نہیں اور غربت اور فاقوں سے ہڈیوں پر لگا ماس بھی سوکھ چکا، اس لیے اب نئے خون اور نئے ولولے ناپید ہیں۔
قارئین! ملک کے معروضی حالات نے ایک چیز تو ثابت کر دی ہے کہ اب چہرے نہیں نظام بدلنا ہوگا خاص طور پر ڈاکٹر طاہر القادری کے فیصل آباد اور لاہور کے عظیم الشان عوامی اجتماعات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آنیوالی ملکی سیاست میں عوامی تحریک اور تحریک انصاف کا کلیدی کردار ہوگا جبکہ موجودہ حکمران پارٹی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو نئی منتخب ہونیوالی پارلیمنٹ میں مشکل سے ہی تلاش کیا جا سکے گا ۔اگر عددی تعداد ہی جمہوریت کی فتح ٹھہری تو یہ چیلنج ڈاکٹر طاہر القادری نے قبول کر لیا ہے۔ میری اپنی اطلاع کے مطابق گذشتہ چند دنوں سے درجنوں سیاسی خانوادے، سینکڑوں امیدواران پاکستان عوامی تحریک کو جوائن کرنا چاہتے ہیں مگر ڈاکٹر طاہر القادری بہت ہی محتاط انداز میں اننگز کھیلنے کے قائل ہیں جبکہ موجودہ حکمران بھی اب لگتا ہے کہ ڈیلی ویجز پر کام کر رہے ہیں۔ کچھ بھی ہو اس بات سے ہر اہل نظر مجھ سے اتفاق کریگا کہ 2015ء کا سورج ایک نئی صبح لے کر طلوع ہوگا جس میں موجودہ اقتدار زدہ طبقات کا نشان تک نہ ہوگا۔ آئندہ چند رو زمیں ہونے والے جلسے اس نظام کو تیزی سے منطقی انجام کی طرف لے جائیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024