سیاسی جماعتیں اگر یہ طے کر لیں کہ آئندہ عام انتخابات میں صرف اور صرف انتخابی منشور کی بنیاد پر حصہ لیا جائے اور ووٹرز بھی صرف اور صرف منشور کی بنیاد پر امیدواروں سے بات کریں اور ان سے پوچھیں کہ آپ کے پاس ہمارے لیے کیا ہے۔ آپ الیکشن جیتنے کے بعد باتوں کے علاوہ ہمارے لیے کیا کریں گے۔ کچھ کریں گے بھی یا نہیں کریں گے یا صرف جھوٹے وعدے ہی کریں گے۔ لوگوں کو انتخابی عمل کا حصہ بننے والی تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ وہ اس مرتبہ عام آدمی کے لیے کیا کام کریں گے ۔ ملک کے مسائل کیسے حل ہوں گے۔ معیشت کیسے سنبھلے گی۔ یہ سب ضرور پوچھنا چاہیے۔ اس گرما گرم اور الزامات سے بھرے سیاسی ماحول میں استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان نے اپنے منشور کے ذریعے تمام سیاسی جماعتوں کو منشور کے حوالے سے ایک واضح اور دو ٹوک پیغام دے دیا ہے۔ چونکہ استحکام پاکستان پارٹی پہلی مرتبہ عام انتخابات کا حصہ بن رہی ہے لیکن اس جماعت کو کامیاب کاروباری شخصیات، فلاحی کاموں میں نمایاں مقام رکھنے والے تجربہ کار سیاست دانوں کی خدمات حاصل ہیں۔ اس جماعت کی اعلی قیادت میں کئی ایسے لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے منشور میں عوامی خدمت کے جتنے بھی منصوبے ہیں ان کی آئی پی پی کے صدر عبدالعلیم خان کی سوچ نظر آتی ہے۔ انہوں نے اس منشور کے ذریعے ہی بنیادی طور پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو بہت واضح پیغام دیا ہے ۔ بہت وضاحت کے ساتھ اور صاف بات کرتے ہوئے وسائل سے محروم لوگوں کی زندگیوں کو بدلنے کی بات کرتے ہوئے انتخابات میں جانے کا اعلان کیا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ عام آدمی کے مسائل کو ترجیحات میں نہ رکھے۔ پاکستان کی بہت بڑی آبادی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان لوگوں کو ہر معاشی، تعلیمی اور صحت کے حوالے سے تحفظ فراہم کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ عبدالعلیم خان اسی تحفظ کے پیغام کو عام کرنے کے لیے شہر شہر جا رہے ہیں۔ وہ برسوں سے پاکستان میں وسائل سے محروم افراد کی خدمت میں مصروف ہیں یوں سیاست کو حقیقی معنوں میں خدمت کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے اس سلسلے میں استحکام پاکستان پارٹی کا منشور یقینی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک چیلنج ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ووٹرز کا بھی امتحان ہے کہ کیا وہ الزامات کی سیاست کا ساتھ دیتے ہیں یا پھر کھوکھلے نعروں کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ آئی پی پی کے منشور میں زرعی اصلاحات کے تحت بارہ ایکڑ تک زرعی اراضی رکھنے والے کو مفت بجلی فراہم کی جائے گی۔ مزدور کی کم سے کم ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہوار مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ شہریوں کو تین سو یونٹس تک بجلی مفت، کچی آبادیوں کےلئے مالکانہ حقوق، شہریوں کیلئے اپارٹمنٹ بلڈنگز کے کم لاگت رہائشی منصوبے تیار کیے جائیں گے۔ موٹر سائیکل سواروں کو پیٹرول کی آدھی قیمتوں پر فراہم کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے، جبکہ ائیر کنڈیشنڈ پبلک ٹرانسپورٹ، بزرگ شہریوں، خواتین اور سٹوڈنٹس کیلئے مفت سفری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ جوانوں اور خواتین کیلیے آسان شرائط پر بلا سود قرضوں و ملازمتوں کی فراہمی، ٹیکنیکل مراکز کا قیام، نئے سرکاری میڈیکل و انجینئرنگ کالج قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ان تمام چیزوں میں سب سے اہم چیز بیرون ملک سکالر شپ کی فراہمی ہے۔ تعلیم اور اچھی تعلیم یہ ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ عبدالعلیم خان استحکام پاکستان پارٹی کے صدر کی حیثیت سے سارے کام کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی سوچ پارٹی کے دیگر عہدیداروں تک جائے گی تو اس سے ملک میں احساس، ترقی اور تعمیر کا سفر شروع ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تعلیم، صحت اور معاشی مستقبل کے منصوبوں پر عملدرآمد سے عام آدمی کی زندگی میں بہتری کے امکانات ضرور ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اب کم سے کم تنخواہ میں استحکام پاکستان پارٹی کے اعلان کو بنیاد بنا کر اتنی ہی تنخواہ کو کم سے کم اجرت مقرر کرنے کے بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ آئی پی پی کے منشور کو اہمیت دینے کے برابر ہے۔ کیونکہ ماضی قریب میں تو کبھی بلاول بھٹو زرداری یا ان کی جماعت نے اس انداز میں کم سے کم اجرت کو بنیاد نہیں بنایا۔ وہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگاتے ضرور ہیں لیکن صرف سندھ کی حد تک ہی بات کریں تو صرف مسلسل پندرہ سال کی حکومت کی بات کریں تو وہ اس انتخابی نعرے کو حقیقت میں نہیں بدل سکے کیا پندرہ سال ایسے کاموں کو شروع کرنے اور عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ چلیں سب مسائل حل نہ ہو لیکن اس حوالے سے کام ہوتا نظر تو آتا ہو لیکن بدقسمتی سے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں بھی اپنے انتخابی نعروں کو حقیقت میں نہیں بدل سکی اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کے سادہ لوح اور معصوم لوگوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھانے کےلئے میدان میں ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے ووٹرز کو بھی اپنے ہمدرد اور تکلیف محسوس کرنے والوں کی طرف ضرور دیکھنا ہو گا ۔ درحقیقت اس وقت بلاول بھٹو زرداری کو یہ خوف ہے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں اقتدار ان کے ہاتھوں سے نکل نہ جائے یہی وجہ ہے کہ ایک طرف وہ مسلم لیگ ن کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان کے عوامی فلاح کے نعروں اور منشور کا توڑ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یقینا یہ آسان کام نہیں بلاول بھٹو زرداری آزمائے ہوئے ہیں ان کی جماعت کئی دہائیوں سے ہر وقت کسی نہ کسی صورت اقتدار میں نظر آتی رہی یے لیکن آج بھی وہ عام آدمی کے بنیادی مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب انہیں نعروں کو دہرانے کے بجائے بالخصوص گذرے پندرہ برسوں کی کارکردگی پیش کرنی چاہیے ۔ اب تو انتخابی میدان سجنے والا ہے استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان اور ان کے ساتھی دہائیوں سے پاکستان کے معصوم لوگوں کو سبز باغ دکھانے اور ان کے جذبات سے کھیلنے والوں کا حقیقی احتساب کریں گے اور یہ احتساب عوام کے ووٹ سے ہی ہو گا۔
آخر میں فیض احمد فیض کا کلام
تیرے ہونٹوں کے پ±ھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حَسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے۔
س±ولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری ز±لفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ سِتم
ہم چلےآئے ، لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل ، دِل میں قِندیلِ غم
اپناغم تھا گواہی تیرے ح±سن کی
دیکھ قائم رہے ، ا±س گواھی پہ ہم
ہم ، جو تاریک راہوں میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری ا±لفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سِلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا مِلے
قتل گاہوں سے چ±ن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے ع±شاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے دَرد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تیری دِلبری کا بھرم۔
ہم ، جو تاریک راہوں میں مارے گئے