
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ اسسمنٹ رپورٹ میں پاکستان کے ترقیاتی بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا ترقیاتی بجٹ ناقابل برداشت ہے، لہٰذا اس پر نظر ثانی کی جائے۔ رپورٹ میں بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق، تمام ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے پاکستان کو 10.7 ٹریلین روپے درکار ہیں، ترقیاتی منصوبوں کی درکار فنڈنگ رواں سال کے ترقیاتی بجٹ 727 ارب روپے سے 14 گنا زیادہ ہے، گزشتہ بجٹ میں حکومت نے 2.3 ٹریلین روپے کے نئے ترقیاتی منصوبے شروع کیے۔ آئی ایم ایف رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری سے قبل ٹیکنیکل اسسمنٹ ضروری ہے، ترقیاتی منصوبوں کے انتخاب کے لیے 5 سالہ پالیسی بنائی جائے، ترقیاتی منصوبوں کو فنڈز جاری کرنے کا طریقہ کار تیار کر کے شائع کیا جائے۔ اسسمنٹ رپورٹ کے مطابق، رواں مالی سال کے آخر تک پاکستان کا قرض 81.8 ٹریلین ہو جائے گا جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 73 فیصد ہے، اگلے بجٹ کا حجم 15.4 ٹریلین تک ہو گا۔ آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیاں زراعت اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر رہی ہیں، سال 2050ءتک پاکستان کی معیشت قدرتی آفات سے 9 فیصد تک متاثر ہو سکتی ہے، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے بجٹ انتہائی ناکافی ہے، پاکستان ترقیاتی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے پراجیکٹس کو ترجیح دے۔ یکے بعد دیگرے وجود میں آنے والی ہماری حکومتوں نے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ اب آئی ایم ایف پوری طرح ہمارے سر پر مسلط ہوچکا ہے اور ہمیں اس کی ہر بات ماننا پڑ رہی ہے۔ عالمی ساہوکار سے لیا جانے والا قرضہ اتنا بڑا نہیں ہے کہ حکومت اس کے بدلے میں ملک کی معیشت کا ہر فیصلہ ہی اس کے سپرد کردے۔ اگر حکومت اپنا قبلہ درست کر لے اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی مراعات و سہولیات پر قابو پا لیا جائے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ آئی ایم ایف یا کسی بھی اور مالیاتی ادارے کی مدد کے بغیر ہم اپنے پاو¿ں پر کھڑے نہ ہوسکیں لیکن اس کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان کے کرنے کا حوصلہ کسی میں بھی نہیں ہے کیونکہ اشرافیہ نے ملک کے پورے نظام کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔