منگل 6جمادی الاول 1445ھ، 21نومبر 2023ئ

کرکٹ ورلڈ کپ: آسٹریلیا چیمپئن، بھارت کو اپنے ہی ملک میں مودی کے سامنے شکست
میاں محمد بخش نے تو نصیحت کی تھی کہ
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے۔۔۔
لیکن یقین جانیں بھارت کی شکست پر ہم پاکستانیوں کو عجیب کمینی سی خوشی ہوتی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہی ہے کہ بھارت نے کبھی کھیل کو کھیل سمجھا ہی نہیں۔ بھارتی میڈیا پر کرکٹ ورلڈ کپ سے متعلق ہونے والی نشریات دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ کھیل کے مقابلوں کے بارے میں بات نہیں ہورہی ِبلکہ کوئی جنگ چل رہی ہے اور نشریات میں حصہ لینے والے افراد میدانِ جنگ سے براہِ راست آنکھوں دیکھا حال پیش کررہے ہیں۔
خیر، آسٹریلیا کو بہت مبارک ہو کہ وہ چھٹی بار آئی سی سی ون ڈے کرکٹ ورلڈکپ جیت گیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ آسٹریلیا کی جیت سے بھارت میں سناٹا چھا گیا۔ اگر بھارت جیت جاتا تو ایسا شور مچتا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی اور یوں ظاہر کیا جاتا کہ بھارت کی کامیابی سے کوئی ایسا انوکھا واقعہ پیش آگیا ہے جو انسانی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی پیش ہی نہیں آیا۔ بھارتی میڈیا پر جو لوگ بات بات پر گھر میں گھس کر مارنے جیسی فضول باتیں کیا کرتے تھے، آسٹریلیا کی طرف سے بھارتی سرزمین پر دی گئی شکست کے بعد انھیں بہت اچھی طرح پتا چل گیا ہوگا کہ گھر میں گھس کر مارنا کسے کہتے ہیں!
٭٭٭٭٭
مظفر گڑھ جیل میں فلمی سین، چوری کا ملزم ٹرک کے نیچے لٹک کر فرار
چوری کے الزام میں گرفتار ہونے والا الطاف حسین کوئی نہایت ماہر کاریگر لگتا ہے جو مظفر گڑھ کی ڈسٹرکٹ جیل سے یوں فرار ہوگیا کہ پولیس کو پتا ہی نہ چل سکا۔ ویسے اس واقعے سے الطاف حسین کی کاریگری سے زیادہ پولیس کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ جیل کے عملے میں سے کسی ایک فرد یا کچھ افراد نے ملزم کی بھاگنے میں مدد کی ہو۔ ہمارے ہاں پولیس کی کارکردگی سے متعلق جو عمومی تاثر پایا جاتا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ گھر کے کسی بھیدی نے ملزم کا ساتھ دیا ہوگا اور بدلے میں اپنے لیے کچھ ’سہولت‘ پیدا کرلی ہوگی۔ گو کہ جیل کا عملہ عام پولیس سے الگ قسم کی پولیس ہوتا ہے لیکن ہوتا تو پولیس ہی ہے نا!
ہمارے ہاں پولیس کے بارے میں پائے جانے والے جس عمومی تاثر کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے اس کے لیے کوئی اور نہیں بلکہ خود پولیس والے ہی ذمہ دار ہیں جو اپنی وردی کی لاج نہیں رکھتے۔ کہیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جرم میں ملوث افراد سے رعایت برتی جاتی ہے اور کہیں یہ ہوتا ہے کہ عام شہریوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جاتا ہے کہ انھیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔ پولیس حکام کو اس سلسلے میں ان مسائل پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے جن کی وجہ سے مذکورہ رویے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ پولیس ریاست کا ایک ایسا ادارہ ہے جو ملک میں امن و امان کے قیام کے علاوہ اس کی بہتری کے لیے بھی بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
برطانیہ میں لائبریری سے لی کتاب 45 سال بعد لوٹا دی گئی
بلیک پول لائبریری میں جس خاتون نے 1970 کی دہائی میں جاری کرائی گئی کتاب واپس کی ہے اس کی تعریف واقعی بنتی ہے۔ خاتون کا کہنا ہے کہ اس نے واپس کی جانے والی کتاب تب جاری کرائی تھی جب وہ لائبریری کے قریب واقع وول ورتھس سٹور میں کام کرتی تھی۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ ایک لمبے عرصے بعد ہی سہی لیکن اس خاتون کو احساس ہوگیا کہ لائبریری کی اہم امانت اس کے پاس ہے، لہٰذا اس نے وہ لا کر لائبریری کو واپس کردی۔ ہمارے ملک میں تو یہ حال ہے کہ ملک کے سب سے بڑے عوامی کتب خانے پنجاب پبلک لائبریری کی ہزاروں کتابیں لمبے لمبے عرصے سے لوگوں کے نام پر جاری ہیں لیکن کسی کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ انھوں نے وہ واپس بھی کرنی ہیں۔ اس سلسلے میں لائبریری کا عملہ بھی ذمہ دار ہے جو ایک تو کتابیں جاری کرانے کے بعد مقررہ مدت میں واپس نہ کرنے والوں کو یاددہانی کے لیے مراسلے نہیں بھیجتا، اور دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص لمبے عرصے کے بعد کتاب واپس کرنا چاہے تو قواعد ایسے ہیں کہ وہ کتاب نہ واپس کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتا ہے۔ پنجاب پبلک لائبریری کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ایک اعلانِ عام کے ذریعے لوگوں سے کہے کہ جن کے پاس لائبریری کی کتابیں مخصوص مدت گزرنے کے بعد بھی موجود ہیں، وہ بغیر کسی جرمانے اور لمبی چوڑی کارروائی کے آ کر کتابیں واپس کردیں۔ قومی امید ہے کہ اس اعلان کے بعد بہت سے لوگ لائبریری کی پرانی کتابیں لا کر واپس کردیں گے جس سے یقینا لائبریری کو فائدہ ہی پہنچے گا۔
٭٭٭٭٭
نیتن یاہو کو بغیر مقدمہ چلائے گولی ماردی جائے، بھارتی رکن پارلیمان
بھارتی ریاست کیرلہ سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن پارلیمان راج موہن اننتھن نے جو بات کہی ہے یہ صرف ان کے جذبات کا اظہار نہیں بلکہ دنیا بھر میں شاید کروڑوں بلکہ اربوں افراد اس خیال کے حامی ہوں گے کیونکہ ناجائز ریاست اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا جو سلسلہ شروع کررکھا ہے اس سے ہر دردِ دل رکھنے والا شخص تکلیف محسوس کررہا ہے۔ بھارتی رکن پارلیمان کا مذکورہ بیان اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ بھارت میں ایک مخصوص طبقہ شدت پسندی کی اس حد کو پہنچا ہوا ہے کہ وہ اس جنگ کو صرف مسلم غیر مسلم کے تناظر میں دیکھ رہا ہے، لہٰذا اس طبقے کے مطابق غاصب صہیونی سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی کارروائیاں جائز ہیں۔ ویسے گاو¿ موتر کو مقدس مان کر اس سے اشنان کرنے اور اسے پینے والوں سے کسی عقل کی بات کی توقع کی بھی نہیں جاسکتی، اس لیے بھارت میں جو لوگ نفرت اور تعصب کی آخری حد پر کھڑے ہو کر غزہ میں ڈھائی جانے والی قیامت کی حمایت کررہے ہیں ان کی باتوں پر دل گرفتہ ہونا ہی نہیں چاہیے۔ اگر عقل نام کی کسی چیز سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق ہوتا تو وہ ایسی حرکتیں ہرگز نہ کرتے جن کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں اپنے آپ کو سامانِ تمسخر بناتے ہیں۔ ایسے عقل کے اندھوں کے لیڈر نریندر مودی جیسے نفرت بیوپاری ہی بن سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭