انتخابات سر پر کھڑے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کو مختلف محاذوں پر چومکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔ یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے منفرد انتخابات ہوں گے عوام بھی ،بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں، حالات بھی نارمل نہیں، مہنگائی بھی زوروں پر ہے، دہشتگردی بھی پھن پھیلائے کھڑی ہے، تھانیدار کے موڈکا بھی کوئی پتہ نہیں، غیر یقینی بھی نمایاں ہے، عوام بھی بیزار ہیں، کوئی پاپولر چورن بھی نہیں بک رہا۔ اب لوگ سبز باغ دیکھنے کی طرف بھی مائل نہیں ہو رہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتے چند کلپ تو سیاست سے بیزاری کا کوئی اور ہی نقشہ پیش کر رہے ہیں ویسے سوشل میڈیا پر اعتبار نہیں لیکن اگر ان میں تھوڑی سی بھی حقیقت ہے تو یہ خوفناک حالات کی نشاندہی کرتی ہے جس میں امیدوار اپنی انتخابی مہم کے اوائل میں لوگوں کی حمایت کے لیے جاتے ہیں اور انھیں عوامی غیض وغضب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ حالات تو نشاندہی کر رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں بمقابلہ عوام میچ پڑنے والا ہے۔ اگر ایسے حالات پیدا ہو گئے تو پھر کیا ہو گا۔ ویسے انتخابی سیاست بھی بہت مہنگی ہو چکی اور آج کے حالات میں انتخابی سیاست کے تقاضے پورے کرنا پل صراط پر چلنے کے برابر ہے جو بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے تیز ہے۔ ایسے میں صرف فرشتے ہی پل صراط پار کرا سکتے ہیں ایسے میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جس کو فرشتوں کی سپورٹ حاصل ہو لہٰذا سب سیاسی جماعتوں میں میراتھن ریس جاری ہے کہ فرشتے ان پر نظر کرم جما لیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ فرشتوں کو سب سے زیادہ نیک پاک اور شریف جماعت نواز شریف کی ن لیگ لگی ہے اور تاحال نظر کرم ان پر ہی ٹکی ہوئی ہے ۔ اس کے قریب تر شریف بننے کی کوشش میں پیپلزپارٹی بہت جتن کر رہی ہے لیکن گھاس نہیں پڑ رہی تحریک انصاف تو ویسے ہی راندہ درگاہ ہو چکی وہ تو ناک کی لکیریں بھی نکال لے تو اسے قبولیت نہیں مل پائے گی چہ جائے کہ کوئی انہونی نہ ہوجائے ورنہ انھیں فیض یابی کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جائے گا۔ بظاہر تو ن لیگ کے لیے سارے راستے پھولوں سے سجا دیے گئے ہیں لیکن عوام کے ردعمل کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ چھوٹی جماعتوں کی حمایت اور بااثر سیاسی شخصیات کو ساتھ نتھی کرنے کی بوسٹر ڈوز بھی دی جا رہی ہے۔اس کے باوجود انجانا خوف جان نکالے جا رہا ہے ۔پیپلزپارٹی کو ڈرا دھمکا کر سندھ تک محدود کیا جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو عوام سے زیادہ دہشتگردی کا خوف ہے بہرحال انھیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے ان کا ایمان ہے کہ جو بھی سیٹ اپ آیا وہ اپنا حصہ وصول کر لیں گے۔ سب سے زیادہ مشکل میں تحریک انصاف والے ہیں جنھیں یہ پتہ نہیں کہ نہ جانے ان کی کسی وقت بھی کسی گلی میں شام ہوجائے کون کس وقت اٹھا لیا جائے بڑے بڑے نامی گرامی ٹکے ٹوکری کیے جا رہے ہیں۔ جو توبہ تائب کرکے چپ کا روزہ رکھ کر خاموشی اختیار کر چکے انھیں بھی ڈھونڈ کر بیعت لی جا رہی ہے تاکہ یہ عوام کے اور اپنی قیادت کے سامنے سرخرو نہ ہو سکیں۔ اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ تحریک انصاف نے الیکشن لڑنا بھی ہے یا نہیں اور اگر لڑنا ہے تو کون اتنے دل گردے والا امیدوار ہو گا جو تحریک انصاف کا پرچم لے کر آواز بلند کر پائے گا۔ بہت ساروں کے خلاف نامزد پرچے ہیں باقی نامعلوم میں سے شناخت کر لیے جائیں گے۔ ایسے میں یا تو تحریک انصاف بائیکاٹ کی طرف جائے گی یا اس کے حمایت یافتہ لوگ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے اور آزاد تو پھر آزاد ہوتے ہیں الیکشن کے بعد ان کو جہاں مرضی لے جایا جائے۔ پاکستان پر غیر یقینی کے سائے اتنے گہرے ہوتے جا رہے ہیں کہ الیکشن کے واضح اعلان کے باوجود پتہ نہیں کہ کس وقت کیا ہو جائے۔ سفید جھوٹ اتنی کامیابی کے ساتھ مارکیٹ کیے جا رہے ہیں کہ نظر نہ آنے والی چیزوں کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے مثال کے طور سب کو لیول پلینگ فیلڈ دی جا رہی ہے، سب کے ساتھ ایک جیسا انصاف ہو رہا ہے، سب کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہے،نگران حکومت غیر جانبدار ہے، الیکشن کمیشن سب کو ایک جیسے مواقع فراہم کرے گا، الیکشن صاف اور شفاف ہوں گے،تمام سیاسی جماعتوں کو ملک بھر میں جلسے جلوس کرنے کی اجازت ہے ،میڈیا آزاد ہے ،سسٹم کسی کو سپورٹ نہیں کر رہا، ایسے میں اگر کوئی گلہ شکوہ کرتا ہے تو سمجھیں وہ کچھ اور چاہتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو یہ بھی الجھن ہے کہ وہ کس کو امیدوار بنائیں، امیدوار بھی پریشان ہیں کہ وہ کس پر سرمایہ کاری کریں۔