ہفتہ ‘ 5؍ ربیع الثانی ‘ 1442ھ‘ 21؍ نومبر 2020ء
نیدر لینڈکی باکسنگ چیمپئن نے اسلام قبول کر لیا
’’نصف النہار‘‘ سے بڑی بھی کوئی روشن دلیل ہو تو وہ بھی اسلام کی حقانیت کے سامنے مدھم ہے تاہم ایسے شخص کی خوش نصیبی بھی قابلِ رشک ہے کہ جس کو عزت، شہرت، دولت سب کچھ میسر ہو ، شعور اور بصیرت کا بھی وافر حصہ عنایت ہوا۔ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک ایسے ہی خوش نصیبوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ’’نیدر لینڈ‘‘ کی باکسنگ چیمپئن ’’جیسیا میسیو‘‘ جو ’’لیڈی ٹائمسن‘‘ اور ’’کک باکسر‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں، سعادت مندوں میں شامل ہوئی ہیں ، انہوں نے اپنے انسٹاگرام اکائونٹ کے ذریعے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ تحقیق اور مکمل مطالعہ کے بعد اسلام قبول کرنیوالی شخصیات ’’جدّی پشتی‘‘ مسلمانوں سے عقیدہ و عمل کے لحاظ سے قدرے مختلف ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ تبلیغ دین کا بہتر فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔عربی کی ضرب المثل ’’الناس علی دین ملوک ھم‘‘ (لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں) کے مصداق بین الاقوامی شہرت کے لوگوں کو جب قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوتی ہے تو پھر جہاں جہاں تک ان کی شہرت ہوتی ہے ، اسلام کی خوشبو وہاں وہاں تک پھیل جاتی ہے ہمارے ہاں بھی معروف کرکٹر محمدیوسف کی مثال موجود ہے۔ ہالینڈ کی باکسنگ چیمپئن سمیت عالمی شہرت کا ٹائٹل رکھنے والی شخصیات کو قبول اسلام کے بعد مزیدچار چاند لگ جاتے ہیں، اطاعت الٰہی اور اطاعت رسولؐ کی سعادت نصیب ہونے کے بعدان کی ہر ہر ادا یادگار ٹھہرتی ہے۔ ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ’’جیسیا میسیو‘‘ کو استقامت دے۔
٭٭٭٭
(ن) لیگ نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والے 5 لاکھ ماسک تیار کرا لیے
ماسک پی ڈی ایم کے لاہور میں جلسہ کے دوران تقسیم کئے جائیں گے ، اس سے ایک تو جلسے کے شرکاء کی گنتی کرنے میں آسانی رہے گی دوسرا ’’ایس او پیز‘‘ پر بھی عمل ہو جائے گا جس سے حکومت کی رٹ بھی نافذ ہو جائے گی اور حکومتی ترجمانوں کے ہاتھ بھی ’’کارکردگی‘‘ کے حوالے سے ایک نقطہ لگ جائے گا کہ ’’قانون سے بالا تر کوئی نہیں، ماسک سب کو پہننا ہو گا، مریم ہو یا بلاول‘‘۔ حالانکہ انہوں نے پہلے ہی ماسک پہنے ہوتے ہیں۔ اب پتہ نہیں ، مریم یا بلاول کے ماسک بھی ’’عوامی‘‘ ہیں یا ’’خواصی‘‘ ہیں ۔’’خواص‘‘ و ’’عوام‘‘ کے ماسک میں صرف ایک قدر ہی مشترک ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘۔ اس سے تو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بھی ماسک میں دب کر رہ جائے گا۔ کہیں یہ ’’پی ڈی ایم‘‘ کی صفوں میںچھپے بعض ’’حامیان حکومت ‘‘ کی چال نہ ہو۔ بہرحال اس پر (ن) لیگ کو خودبھی عمل کرنا چاہئے اور اس کو محض نعرہ ہی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ جو عوامی نعرہ ہے کہ ’’ووٹ نہیں، ووٹر کو عزت دو‘‘ اسے عام کرنا چاہئے کیونکہ اگر ووٹر کو عزت مل جائے تو صورت حال کافی بہتر ہو سکتی ہے ورنہ ماسک پہننے سے تو کوئی تبدیلی آئی ہے نہ آئے گی بلکہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا ماسک پہنے لوگ اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ …؎
ہم ذرے ہیں ، خاک رہگذر کے
دیکھو ہمیں بام سے اتر کے
٭٭٭٭
پشاور میٹرو بس میں فنی خرابی کا سلسلہ نہ رک سکا
لاہور کی میٹرو بس سے بی آر ٹی پشاور کا تقابل تو نہیںکیا جا سکتا کیونکہ پشاور میں جب بی آر ٹی منصوبے پر کام شروع ہوا تو اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ بڑے ہی متحرک رہنما پرویز خٹک وزیر اعلیٰ تھے ، منصوبہ مکمل ہوتے ہوتے کئی بار اضافی فنڈز بھی حکومت کو دینا پڑے ،تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں پہلی حکومت کے دوران تو منصوبہ مکمل نہ ہوا پھر دوسری مدت بھی آدھی گزر جانے کے بعد’’پشوریوں‘‘ کے نصیب کھلے ، ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘‘ کے مصداق میٹرو بس پشاور کا منصوبہ مکمل ہوا ، افتتاحی تقریب میں وزیراعظم نے پرویز خٹک کی تعریف کی لیکن جب سے بی آر ٹی سروس شروع ہوئی پتہ نہیں اس پر کس ’’نحوست ‘‘ کے سائے ہیں کہ کبھی بسں کو آگ لگ جاتی ہے ، کبھی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی بسیں راستے میں خراب ہو جاتی ہیں۔ کوئی اور صوبہ ہوتا تو سمجھتے کہ ’’کمیشن مافیا‘‘ نے کام دکھایا ہے۔ اب پشاور میں کون کام دکھا رہا ہے ، منصوبے کی تکمیل میں غیر معمولی تاخیر کیوں ہوئی۔ تخمینہ سے زائد فنڈز کیوں دینا پڑے تھے۔ ان ساری خوبیوں کے حامل پشاور بی آر ٹی منصوبے کا میٹرو بس لاہور سے موازنہ کریں تو یقیناً …؎
یہی ’’سچ‘‘ ہے کہ
یہ ساری باتیںجھوٹی ہیں
یہ غیروں نے پھیلائی ہیں
حفیظ جالندھری نے کیا خوب کہا ہے کہ
قافلے برباد ہو کر رہ گئے تو کیا ہوا
مطمئن ہیں قافلہ سالار اپنے کام سے
٭٭٭٭
غلط انجکشن سے معذور بچی کی پیدائش ، نیو یارک میں نرس کو 74 کروڑ روپے ہرجانہ
فیصلہ امریکی ریاست سیٹل کی عدالت نے سنایا ۔ نرس نے غلط انجکشن لگا دیا جس کے باعث خاتون نے معذور بچی کو جنم دیا۔ نرس 74 کروڑ روپے زچہ کو ادا کرے گی۔ یہ ہوتی ہے ، قانون کی حکمرانی۔ ہمارے ہاں خدانخواستہ ایسا واقعہ ہوتا تو ورثاء نرسوں ، پیرا میڈیکس سٹاف اور ڈاکٹرز کے سامنے ہاتھ جوڑ کر باقاعدہ بیان حلفی دیتے کہ ’’ہم کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ نرس کا کوئی قصور نہیں ، نومولودہی قصور وار ہے۔ اگر زچہ بچہ ورثاء سر پھرے ہوں ، ہسپتال میں توڑ پھوڑ کریں یا قانونی چارہ جوئی کے لیے ہاتھ پائوں مارنے لگیں تو پھر دوسری طرف سے آئوٹ ڈور ، ایمرجنسی ، آپریشن تھیٹر بند کرنے اور دھرنے دینے تک نوبت آ جاتی ہے۔ شکایت کرنے والے متاثرہ خاندان کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ، الٹا ان کے خلاف مقدمات درج کر لئے جاتے ہیں۔ لیکن قدرت کی لاٹھی بھی بڑی بے آواز ہے وہ پھر کسی اور طرح سے حساب برابر کرا دیتی ہے۔ کاش ہمارے ہاں بھی آئین و قانون کی حکمرانی ہو اور کوئی خود کو بالا تر نہ سمجھے ۔
گلشن گلشن محفل محفل ، ایک ہی قصہ ایک ہی بات
ظالم دنیا جابر دنیا ، جانے یہ کب بدلے گی