مقبوضہ کشمیر میں 109ویں روز بھی بھارتی فوجی محاصرہ جاری رہنے کے باعث لوگوں کو بدستور مشکلات کا سامنا رہا۔
مقبوضہ کشمیر کے لوگ سول نافرمانی کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں اور کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔
سڑکوں پرپبلک ٹرانسپورٹ معطل ہے اور علاقے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز پر پابندی برقرار ہے۔
ادھر جموں خطے سے تعلق رکھنے والی آزادی پسند تنظیموں نے اسلام آبادمیں ایک اجلاس میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان کی مذمت کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات معمول پر آگئے ہیں۔
امیت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر میں پانچ اگست کے بعد سے پولیس کی فائرنگ سے ایک بھی شخص کی جان نہیںگئی۔
دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں امیت شاہ کے دعوئوں کو سراسر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 36 بے گناہ کشمیریوں کو شہید، 852 کو زخمی جبکہ تقریباً 15ہزار افراد کو گرفتار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سخت فوجی محاصرے کے زیر اثر ہے اور انسانی حقوق کی کئی رپورٹوں میں امیت شاہ کے بیان کو مسترد کیا گیاہے۔
اُدھر ترکی میں بین الاقوامی کانفرنس کے مندوبین نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نافذ فوجی محاصرے کو ختم کرے اور تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کرے۔
دو روزہ کانفرنس جس کا موضوع تھا ''کشمیر کی صورتحال سے امن کو لاحق خطرات اور عالمی برادری کا کردار'' آج انقرہ میں ختم ہوگئی۔
دنیا بھر کے معروف سکالرز ' ارکان پارلیمنٹ' صحافیوں اور ادیبوں نے کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کے پانچ اگست کے یکطرفہ اور غیر قانونی فیصلے کی متفقہ طور پر مذمت کی۔
شرکاء نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال اور بھارت میں ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی گہری تشویش ظاہر کی جس سے اقلیتوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں' مبصرین اور آزاد ذرائع ابلاغ کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
انہوں نے متفقہ طور پر جموں و کشمیر کے تنازعے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے جنوبی ایشیا میں کشیدگی ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں اور ان کے درمیان کسی بھی طرح کی غلط فہمی پوری دنیا کے لئے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔
آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان' سینیٹر شیری رحمن' لارڈ نذیر احمد اور دیگر مقررین نے پانچ اگست سے اب تک مقبوضہ علاقے کی موجودہ صورتحال کا جامع خاکہ پیش کیا۔
ترکی کے اعلیٰ عہدیداروں نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔
بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے مقبوضہ کشمیر میں صورتحال معمول پر آنے کے بھارتی حکومت کے دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔
انڈین نیشنل کانگریس نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو غیر یقینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں صورتحال معمول پر کیسے آسکتی ہے جب ہزاروں کشمیری اپنی سیاسی قیادت سمیت طویل عرصے حراست میں ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی نے بھی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پانچ اگست سے کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں جبکہ ساڑھے تین ماہ گزرنے کے باوجود بھی مقبوضہ علاقے کا فوجی محاصرہ جاری ہے۔
جموں و کشمیر نیشنل پنتھرز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر بھیم سنگھ نے بھی بھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ کے بیان پر افسوس کااظہار کیااورکہا کہ بھارتی رہنماکشمیر کی صورتحال پر پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
برسلز میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکام کے غیر انسانی کرفیو کے خلاف احتجاج کے لئے یورپی یونین کی ایکسٹرنل ایکشن سروس کے سامنے کشمیر کونسل یورپ کے زیراہتمام ایک روزہ کیمپ منعقد کیا گیا۔