سب کیلئے یکساں قانون و انصاف کا تصور ہی ریاست مدینہ کا تصور ہے
وفاقی کابینہ کا معمولی جرائم والے قیدیوں بشمول بیماروں کیلئے عام معافی کا فیصلہ اور چیئرمین نیب کا ہوا کا رخ بدلنے کا عندیہ
وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک بھر میں معمولی نوعیت کے جرائم میں قید 65 سال سے زائد عمر کے قیدیوں کو رہا کر دیا جائیگا۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کئے گئے اس فیصلے سے عمر رسیدہ قیدیوں کے علاوہ کم سن قیدی اور خواتین قیدی بھی مستفید ہوں گی۔ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کابینہ کے فیصلوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ کابینہ نے معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث قیدیوں کیلئے عام معافی دینے کا اصولی فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق عمر رسیدہ قیدیوں‘ خواتین اور بچوں کے علاوہ ان بیمار قیدیوں پر بھی ہوگا جن کا جیلوں میں علاج نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلہ میں متعلقہ قیدیوں کا ڈیٹا بنک اکٹھا کیا جائیگا اور ان قیدیوں کی فہرست آئندہ ہفتے کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جائیگی۔ وزیراعظم عمران خان نے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معیشت بالآخر درست سمت کی جانب گامزن ہے اور ہماری متعدد اصلاحات کے ثمرات ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب کی جانب سے یکطرفہ احتساب کو غلط قرار دیا اور کہا کہ اب ہم ایسے کیسز کی جانب جارہے ہیں جن سے یکطرفہ احتساب کا تاثر ختم ہو جائیگا۔ انہوں نے نیب راولپنڈی کے افسروں میں سرٹیفکیٹس کی تقسیم کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 2017ء کے بعد کوئی میگا کرپشن سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ جو کریگا‘ وہ بھرے گا‘ کسی سے ڈیل ہوگی نہ ڈھیل ہوگی اور نہ ہی کسی کو این آر او ملے گا۔ انکے بقول اب صوبہ کارڈ نہیں چلے گا۔ نیب کارروائی جاری رکھے گا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ایک صوبے میں نیب کو کام نہیں کرنے دیا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں کی حالت انتہائی خراب ہے مگر اسکے ذمہ دار لوگ زکام کے علاج کیلئے لندن اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن سیاست دانوں کے کیسز نیب میں ہیں‘ وہ دشنام طرازی کے بجائے پلی بارگین کریں اور بیرون ملک چلے جائیں‘ وہ وقت جلد آئیگا جب ریاست مدینہ اپنی شکل اختیارکریگی اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم سب اپنا احتساب کرینگے۔ ہم صرف پاکستان اور اسکے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں‘ کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ وہ صاحب اقتدار ہے اور اسے کچھ نہیں کہا جائیگا۔ انکے بقول اب ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے۔ پہلے 25 سے 30 سال پرانے مقدمات نمٹائے گئے‘ اب ہم دوسری طرف جارہے ہیں۔ نیب پر یکطرفہ احتساب کا الزام درست نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے مروجہ سٹیٹس کو والے سسٹم میں Haves‘ اور Haves not کا تاثر پختہ ہوا ہے جس میں بے وسیلہ غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وہ اپنے سے منسوب سلطانی جمہور میں صرف حکمرانی کا مینڈیٹ حاصل کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں مگر انہی حکمران طبقات کے ہاتھوں بدترین استحصال کا شکار ہوجاتے ہیں‘ جن کیلئے سرکاری ریاستی اداروں سے انصاف کے ایوانوں تک دادرسی اور حصول انصاف کے دروازے بند ہوتے ہیں ‘جو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہوتے ہیں اور اقتصادی ناہمواریوں سے بھی دوچار رہتے ہیں‘ حتیٰ کہ انکی صفوں میں سے کوئی آدمی انتخاب لڑ کر اسمبلیوں میں پہنچنے کا بھی تصور نہیں کر سکتا۔ سلطانیٔ جمہور میں جمہور ہمیشہ راندۂ درگاہ بنی رہی ہے اور انکے ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آنیوالے سلطانوں کو دنیا کی ہر نعمت میسر ہوتی ہے جو اپنے اختیارات کو استعمال کرکے اپنے آنگن ہی نہیں بھرتے‘ اپنے پیاروں کو نوازنے میں بھی یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ ایسے ہی استحصالی نظام کے شکنجے میں ہندوستان کے مسلمان جکڑے ہوئے تھے جو انگریز سامراج اور ہندو ساہوکاروں کا مسلط کردہ تھا۔ بانیانِ پاکستان اقبال و قائد نے مسلمانوں کو اس استحصالی نظام کے شکنجے سے نکالنے کیلئے ہی ان کیلئے الگ مملکت کا تصور پیش کیا اور سات سال پر محیط ایک عظیم تحریک کے نتیجہ میں پاکستان کی شکل میں الگ مملکت کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ قیام پاکستان کے ایک سال سے بھی کم عرصہ میں راہی ٔملک عدم ہو گئے جن کے بعد انگریز اور ہندو کے ٹوڈی مفاد پرست طبقات نے اس ملک خداداد کو اسی استحصالی نظام کی جانب واپس دھکیل دیا جس سے نجات کیلئے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ مفاد پرست عناصر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مسند اقتدار پر براجمان ہوتے رہے اور انہوں نے اسلامی‘ فلاحی جمہوری پاکستان کے بانیان پاکستان کے خواب ملیامیٹ کر دیئے۔ چنانچہ بے وسیلہ عام عوام کیلئے زندگی کی کٹھنائیاں اسی طرح برقرار رہیں اور اس استحصالی نظام کے پروردہ سیاست دان انکے ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے مزے لوٹتے اور اپنے اپنے اقتدار کی باریاں لگاتے رہے۔ یقیناً ہمارا نظام عدل بھی اسی استحصالی نظام کے زیراثر رہا ہے جس میں عام آدمی کی حصول انصاف کیلئے انصاف کے ایوانوں تک رسائی ہی ممکن نہیں ہوتی تھی۔ اسی سے عام آدمی کیلئے الگ اور حکمران اشرافیہ طبقات کیلئے دوسرے قانون کا تصور اجاگر ہوا۔
عوام کے دل میں تو ’’سٹیٹس کو‘‘ والے اس نظام سے چھٹکارا پانے کیلئے ہمیشہ کسک رہی ہے اور اسی بنیاد پر جب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے تبدیلی‘ نیا پاکستان اور کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کا نعرہ لگایا تو عوام نے اپنے بہتر مستقبل کی خاطر انکے پروگرام‘ منشور اور ایجنڈے پر لبیک کہا اور 2018ء کے انتخابات میں انہیں منصبِ حکمرانی پر فائز کردیا۔ بدقسمتی سے عوام کی اپنے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل سے نجات کیلئے پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کے ساتھ وابستہ کی گئی امیدیں اب تک پوری نہیں ہو سکیں اور ان مسائل میں مزید اضافہ ہونے کے باعث عوام کی مایوسیاں بھی بڑھنے لگی ہیں جبکہ عوام کیلئے گھمبیر ہونیوالے ان مسائل کے باوجود وزیراعظم عمران خان کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل کیلئے اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں مگن رہے اور کسی چور ڈاکو کو نہ چھوڑنے کے عزم پر وہ آج بھی کاربند ہیں۔ اس کیلئے نیب کی شکل میں احتساب کا خودمختار ادارہ موجود ہے جس کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال بھی بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کے داعی ہوتے ہیں تاہم گزشتہ دو سال کے دوران زیادہ تر سابق حکمران مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے لوگ ہی احتساب کے عمل میں نیب کے مقدمات کی زد میں آئے اور سزا یافتہ بھی ہوئے جس سے انہیں یکطرفہ انتقامی سیاسی کارروائی کے الزامات کا موقع ملا۔
اگرچہ چیئرمین نیب نے گزشتہ روز اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ نیب نے پہلے 25 سے 30 سال پرانے مقدمات نمٹائے ہیں اور اب ہوا کا رخ بدل رہا ہے تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے قائدین اور دوسرے عہدیداروں کیخلاف نیب عدالتوں میں جن مقدمات کی سماعت ہوئی وہ پانامہ کیس کے حوالے سے گزشتہ تین سال کے دورانیے میں ہی درج اور نیب عدالتوں میں دائر ہوئے۔ اسی عرصہ میں منی لانڈرنگ کی بنیاد پر موجودہ حکمران جماعت اور اسکی حلیف جماعتوں کے ارکان کیخلاف جو مقدمات درج اور دائر ہوئے ان میں ماسوائے تین چار مقدمات کے‘ کسی مقدمے میں ایسی پیش رفت نظر نہیں آئی جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے لوگوں کیخلاف مقدمات میں کی جاتی رہی ہے اور اس سے ہی یکطرفہ احتساب کا تصور اجاگر ہوتا رہا ہے۔
اب سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو انکی سخت علالت کے باعث علاج معالجہ کیلئے بیرون ملک جانے کی عدالتی اور حکومتی سہولت ملی ہے تو اس سے استحصالی نظام میں پرورش پانے والا Haves‘ اور Haves not کا تصور دوبارہ اجاگر ہونا بھی فطری تھا تاہم اس تصور کو حکومتی ٹیم کی جانب سے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کیخلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کیا گیا اور خود وزیراعظم عمران خان نے دو روز قبل ہزارہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نظام عدل کی جانب اشارہ کیا اور غریب اور امیر کیلئے الگ الگ قانون اور انصاف کا تاثر دیکر چیف جسٹس سپریم کورٹ اور انکے جانشین سے درخواست کی کہ وہ عوام پر عدلیہ کا اعتماد بحال کریں۔ اصولی طور پر تو اب یہ ہونا چاہیے کہ مجرم میاں نوازشریف کو بیرون ملک علاج معالجہ کیلئے دی گئی حکومتی اور عدالتی سہولت کی بنیاد پر عام طبقات سے تعلق رکھنے والے اسی نوعیت کے بیمار مجرمان کو بھی یہی رعایت دی جائے جس کیلئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ پہلے ہی قرار دے چکے ہیں کہ کسی عام قیدی کا کیس بھی عدالت میں آئیگا تو اسکی بھی میاں نوازشریف کے کیس ہی کی طرح فوری سماعت ہوگی۔ اس بنیاد پر پیچیدہ امراض میں مبتلا بے وسیلہ قیدیوں کیلئے ملک کے اندر یا ملک سے باہر علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جو انہیں عدالتی دادرسی کیلئے وکیل کی خدمات بھی مہیا کر سکتی ہے۔ تاہم حکومتی حلقوں کی جانب سے اس ایشو پر سیاست کرکے سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہی کیا گیا۔ اب وفاقی کابینہ نے معمولی جرائم میں ملوث مجرمان کیلئے بلاامتیاز عام معافی کا فیصلہ کیا ہے جس سے عمر رسیدہ مجرموں کے علاوہ خواتین‘ بچے اور بیمار قیدی بھی مستفید ہونگے تو اس فیصلے پر عملدرآمد سے یقیناً سب کیلئے قانون و انصاف کی حکمرانی اور اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کا تصور عملی قالب میں ڈھلے گا اور اسی طرح چیئرمین نیب کے گزشتہ روز کے اعلان کے مطابق یکطرفہ احتساب کا تاثر ختم ہوگا تو اس سے وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کی تشکیل سے متعلق اپنے خواب کی تکمیل میں بھی سرخرو ہونگے۔ اگر سب کیلئے ایک ہی قانون اور مساوی انصاف کی جانب سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر پیش رفت کی جائے تو اس سے قیام پاکستان کیلئے بانیان پاکستان کے متعین کردہ مقاصد کی بھی تکمیل ہو جائیگی۔ وزیراعظم عمران خان کو اس معاملہ میں عملیت پسندی کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور بلیم گیم میں خود کو نہیں الجھانا چاہیے۔