جمعرات ‘23 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 21؍ نومبر2019 ء
رہبر کمیٹی نے دھرنے ختم کرنے کا فیصلہ کر دیا
یہ تو وہی …؎
سفر تمام ہوا اور حیرتیں نہ گئیں
تھیں قربتیں تو وہیں فاصلہ بلا کا تھا
والی بات ہے۔ کہاں منزل قریب ہے۔ ڈیرے منزل پر ڈالنے کے دعوے۔ کہاں یہ خاموشی کے ساتھ پہلے اسلام آباد دھرنا اٹھانا اور پھر اب چند روز بعد سڑکوں کا دھرنا بھی ختم کرنے کا اعلان۔ مولانا فضل الرحمن کے اس طرز عمل نے عوام کو مولانا طاہر القادری کی یاد دلا دی تھی۔ جنہوں نے ایسے ہی دھرنے کے دوران کفن ساتھ لاکر دکھا کر کہا کہ ہم مر جائیں گے واپس نہیں جائیں گے۔ مگر سب نے دیکھا وہ زندہ سلامت مذاکرات کے بعد واپس کینڈا گئے۔ اب مولانا نے بھی یہی کیا ہے ۔ راوی اس بارے میں خاموش ہے کہ مولانا قادری اور فضل الرحمان نے کس بات پر واپسی کا فیصلہ کیا‘ مذاکرات میں کیا طے پایا۔
البتہ فرد وس عاشق اعوان صاحبہ نے دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ مولانا کو صرف لولی پاپ دیا گیا ہے۔ ابھی تو محفل پوری طرح جمی ہی نہیں تھی کہ الٹ دی گئی اب عام لوگ اور کارکن
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ اپنی دکاں بڑھا گئے
کہہ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہے ہیں۔ تا ہم اکرم درانی حوصلہ دے رہے ہیں کہ دو ماہ تک عمران خان وزیراعظم نہیں ہونگے۔ اب بھلا ان کی اس پیشن گوئی پر کون یقین کرے گا۔ موجودہ صورتحال میں اب کوئی لاکھ سمجھائے کہ دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ رہبر کمیٹی نے کیا ہے جس میں مسلم لیگ (ن) پی پی پی اور اے این پی بھی شامل ہے مگر کون مانے گا کیسے یقین آئے گا۔ مولانا فضل الرحمن خاموش ہیں۔ مولانا طاہر القادری تو علاج کے لئے کینیڈا چلے گئے تھے مگر فضل الرحمن نے تو یہاں ہی رہنا ہے۔ عوام کا سامنا کرنا ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
٭…٭…٭
وزرا میری کارکردگی پر پانی پھیر رہے ہیں‘ بلاول
صوفیوں جوگیوں کی سرزمین سندھ کی حالت دیکھ کر بلاول جی کا شکوہ درست معلوم ہوتا ہے۔ کہیں سے بھی کوئی راہ سیدھی نہیں۔ جہاں چلے جائیں۔ کرپشن تباہی بربادی‘ لوٹ مار‘ غنڈا گردی کی ایک سے بڑھ کر ایک داستاں سننے کو ملتی ہے۔ سندھ کے نبض شناش صوفی شاہ لطیف بھٹائی نے تو کہا تھا (ترجمہ)
شتر بانوں کے خیمے آباد رہیں
ظالموں کے محلات برباد ہوں گے
مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ غریب برباد ہو رہے ہیں۔ محلات آباد ہو رہے ہیں۔ جسے جہاں موقع ملتا ہے سب کچھ سمیٹ کر اپنے لئے رکھنا چاہتا ہے۔ عالی شان محلات میں رہنے والوں کوعلاج تعلیم اور خوراک کی سہولتیں حاصل ہیں۔ غریب ان تمام سہولتوں کے لئے ترس رہے ہیں۔ ان حالات میں بھی وہ پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر جان و دل سے فدانظر آتے ہیں۔ مگر یہ یکطرفہ عشق کب تک چل سکتا ہے۔ اب حالات بدل رہے ہیں۔
اس بات کا ادراک شاید بلاول صاحب کو ہونے لگا ہے۔ انہیں پتہ چل رہا ہے کہ وزرا مشیروں اور بیورو کریٹس نے کیا اندھیر مچا رکھا ہے۔ اس لئے انہیں یہ کہنا پڑا۔ سندھ کے وزیر اور صوبائی حکومت جانتی ہے کہ ان کی یہ ساری باغ دبہار بھٹو خاندان کیساتھ وابستہ رہنے میں ہے یہ محلات و عیش انہی کے دم قدم سے ہے اس لئے اب انہیں بلاول جی کو مطمئن کرنے کے لئے کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔ ورنہ وہ اپنے ساتھ پیپلزپارٹی کے چیئرمین کا مستقبل بھی دائو پر لگا رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ والی نوبت آجائے اسلئے وہ بلاول کی کارکردگی پر پانی پھیرنے کی بجائے اس پر سے پانی خشک کرنے کی کوشش کریں۔ ویسے آپس کی بات ہے بلاول صاحب کس کارکردگی کی بات کر رہے ہیں۔ فی الحال تو ایک سال میں کچھ کرتے نظر نہیں آئے۔
٭…٭…٭
عماد علی نے جونیئر ورلڈ سکر یبل چیمپئن شپ جیت لی
صرف یہی نہیں بلکہ اس چیمپئن شپ میں پہلی تینوں ٹاپ پوزیشنوں پر پاکستانی ہی قابض ہیں۔ یعنی دوسری اور تیسری پوزیشن بھی پاکستانیوں کے پاس ہے۔ کم از کم ایک آدھ پوزیشن دوسرے ممالک کے بھی چھوڑ دیتے۔ ایسی برق رفتاری ترقی اور کامیابی کو کبھی کبھی نظر بھی لگ جاتی ہے۔ لیکن ہم سب ’’حضرت اقبال کے ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ کے فلسفے کامل یقین رکھتے ہیں اس لئے جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے نکلنے کی کوششوں میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ہماری نئی نسل کی پر کمپیوٹر اور موبائل پر پھرتیاں اور مہارتیں بھی دیکھنے والی ہیں۔ وار گیمز سے لے کر میسج تک میں بچوں کی برق رفتاری اور دائو پیچ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لفظ جوڑنا بامعنی لفظ بنانا بھی ایک ذہنی گیم ہے۔ معموں کے شوقین جو معمے حل کرنے ماہر ہوتے ہیں وہ چٹکی بجاتے ہی حروف تہجی کو ملا کر کئی الفاظ سیکنڈوں میں جوڑ لیتے ہیں۔
عالمی سطح پربھی جہاں غیر ضروری قسم کے اول فول کھیلوں کو سراہا جاتا ہے۔ ذہنی کھیلوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اس کے مقابلے ہوتے ہیں ایسے ہی ایک جونیئر ورلڈ سکریبل چیمپئن شپ جو انگلینڈ میں ہوئی پاکستان کے ایک 13سالہ نوجوان یہ عماد علی نے جیت لی۔ انہیں صرف چیمپئن ہونے کا اعزاز ہی نہیں ملا بلکہ سب سے کم عمر ترین چیمپئن کا اعزاز بھی ان کے حصے میں آیا ہے۔ جس سے عالمی سطح پر پاکستان نے سکریبل کی دنیا میں بھی اپنا سکہ جما لیا۔ باقی دو پوزیشنز بھی پاکستانیوں نے ہی حاصل کیں۔ اس طرح وکٹری سٹینڈ پر تین پاکستانی براجمان ہوئے۔ جس وقت یہ اعزاز اور کپ حماد علی نے وصول کیا ان کی خوشی دیدنی تھی۔ باقی دو کھلاڑیوں کے چہرے بھی مسرت سے تمتما رہے تھے۔ یہ تینوں ہمارے آنے والے روشن مستقبل کے روشن سفیر ہیں جو مبارک باد کے مستحق ہیں۔
٭…٭…٭
باکسر عامر خان بھی سیاست میں آنے کیلئے تیار
ہمارے ہاں سیاست واحد ایسی چیز ہے جس میں آنے کے لئے کسی تعلیم یا تجربہ کی ضرورت نہیں۔ ویسے تو کوئی گھریلو ملازم رکھے یا سرکاری و نجی ادارہ ملازم بھرتی کرے۔ وہ بھی تعلیم تجربہ اور عمر کا خاص خیال رکھتاہے۔ ہمارے ہاں بابے بھی نوجوان رہنما کہلاتے ہیں اور انگوٹھا چھاپ اعلیٰ تجربہ کار بلند نظر کہلاتا ہے۔ اب وزیر اعظم عمران خان کے بعد آہستہ آہستہ کھلاڑیوں گلوکاروں‘ اداکاروں میں بھی یہ شوق پروان چڑھ رہا ہے۔وہ بھی کوچہ سیاست میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ آگے بڑھ سکتے ہیں بس ذرا صبر تسلی اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے 20,22سال اس کوئے ملامت کی خاک چھانی تب کہیں جا کر گوہر مراد ان کے ہاتھ آیا۔
باکسر عامر خان بھی عمران خان کی طرح کھلاڑی ہیں اور سب سے بڑھ کر عوام انہیں بھی عمران خان کی طرح پسند کرتے ہیں۔ عمر میں وہ جوان ہیں۔ صحت مند ہیں۔ پر جوش ہیں‘ گھریلو و ذاتی تنازعات جس طرح انہوں نے ہینڈل کیے وہ بھی ان کی ذہنی قابلیت کا ثبوت ہے۔ عوام کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے وہ ایسے پر جوش لوگ ہی پسند کرتے ہیں۔ اب اگر عامر خان سیاست میں آتے ہیں تو وہ بھی ہلچل مچا سکتے ہیں۔ درگاہوںپر ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ عوام پر اس کا بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ اب ذرا ان کی بھی بلاول زرداری کی طرح تھوڑی سیاسی تربیت ہو جائے تو وہ سیاسی افق کا ایک ابھرتا ستارہ بن سکتے ہیں۔ گورنر پنجاب چودھری محمدسرور کا تعلق بھی برطانیہ سے ہے ان کی سیاسی تربیت بھی وہاں ہوئی ہے۔ عامر خان بھی برطانیہ میں ہیں اور وہیں پڑھے ہیں۔ اگر وہ آکر گورنر پنجاب کی شاگردی اختیار کر لیںتو میدان مار سکتے ہیں۔ گورنر پنجاب انہیں تمام دیسی سیاسی دائو پیچ اور گر سکھا دیں گے۔
٭…٭…٭