وزیراعظم کا اپوزیشن کے خلاف طبل جنگ
نواز رضا
بالآخر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ’’ انڈیمنٹی بانڈ‘‘ جمع کرائے بغیر علاج کے لئے برطانیہ چلے گئے ہیں ’’بے چاری‘‘ حکومت ’’ تکتی‘‘ رہ گئی میاں نواز شریف کو ’’عدالتی جرمانہ‘‘ کے برابر انڈیمنٹی بانڈ جمع کرانے کے خواہشمندحکومتی عہدیداروں کو شدید’’ مایوسی ‘‘ کا سامنا کرنا پڑا ۔ کبھی وزیر اعظم عمران خان نے نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کواپنی ’’ رحمدلی ‘‘ اور ’’نواز ش ‘‘قرا دیا اور کبھی اس بات کارونا رویا ’’ پاکستان میں امیر کے لئے انصاف کے پیمانے کچھ اور غریب کے لئے کچھ اور ہیں‘‘۔موجودہ حکومت نے میاں نواز شریف کو عدالتی جرمانہ کے برابر7ارب کا’’ انڈیمنٹی بانڈ ‘‘ جمع کرا کر علاج کے لئے ایک بار بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت تو دے دی لیکن میاں نواز شریف کی ’’انا‘‘نے ’’تاوان‘‘ کی ادائیگی کے عوض بیرون ملک جانے سے انکار کر دیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے وفاقی حکومت کی جانب سے عائد کی گئی شرط کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا تو وہاں سے ’’ریلیف‘‘ مل گیا اور لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو ’’تاوان‘‘ کی طلبی سے روک دیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ میاں نواز شریف کو ’’انڈیمنٹی بانڈ‘‘ جمع کرائے بغیر بیرون ملک جانے کی اجازت پر حکومت بار بار اپنا موقف تبدیل کرتی رہی ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے وفاقی حکومت نے میاں نواز شریف کو ’’انڈیمنٹی بانڈ ‘‘ جمع کرائے بغیر باہر جانے کی اجازت کو دل سے قبول نہیں کیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو ’’من و عن ‘‘ تسلیم کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن اگلے روز ہی وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کر ڈالی ۔حالانکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتا ہے۔ سیاسی معاملات میں اپنے آپ نہیں الجھاتا۔میاں نواز شریف کو ’’انڈیمنٹی بانڈ‘‘ جمع کرائے بغیربیرون ملک علاج کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت پر حکومت کا نیا’’ بیانیہ‘‘ سامنے آگیا ۔جس میں حکومت نے ایک نئی پوزیشن اختیار کر لی ہے اور لاہور ہائی کورٹ کے ’’ عبوری حکم ‘‘کو حکومت کی ’’ جیت ‘‘ قرار دے کر ’’ڈفلیاں ‘‘ بجانے لگی ۔جب کہ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے حکومتی’’ لا ء افسر‘‘ کی عدالتی فیصلے کی ’’غلط‘‘تشریح کو توہین عدالت کے مترادف قرار دیا ۔ حکومت نے 50روپے کے اشٹام پر میاں نواز شریف کا حلف نامہ بھی قبول کر لیا وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے بھی کہہ دیا ہے کہ’’ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی میں ڈیل ہوئی ہے اور نہ ہی یہ ڈھیل ہے۔ حکومت اور نواز شریف دونوں کی عزت رہ گئی ہے‘‘ شیخ رشید احمد بھی آئے روزبیان تبدیل کرنے کی شہرت رکھتے ہیںاگرچہ وفاقی حکومت کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرے گی لیکن بعض وزراء نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپنا راگ الاپنا شروع کر دیا اور حکو مت کے ’’لاء افسر‘‘ کے’’ بیانیہ ‘‘سے کھل کر اختلاف رائے کا اظہار کر کے اس تاثر کو تقویت دی کہ حکومت لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ’’ناخوش ‘‘ ہے ۔ ’’انڈیمنٹی بانڈ ‘‘ جمع کرا ئے بغیر میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دئیے جانے پر وزیر اعظم عمران خان کے’’ غصے اور ناراضی‘‘کا اندازہ ان کی ہزارہ موٹر وے کی افتتاحی تقریب سے خطاب سے لگایا جا سکتا ہے ۔ان کے لب و لہجہ سے یہ بات عیاں نظر آتی تھی کہ انہوں نے اپوزیشن کے خلاف’’ طبل جنگ ‘‘ بجا دیا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے حال ہی میں ہونے والے کچھ فیصلوں کو انہوں نے ’’خوش دلی ‘‘ سے تسلیم نہیں کیا۔ وہ دوبارہ اسی پوزیشن پر کھڑے نظر آتے ہیں جہاں وہ چیئرمین تحریک انصاف کی حیثیت سے کھڑے تھے ان کی تقریر وزیر اعظم کے منصب کے شایان شان نہیں تھی۔ اپوزیشن کے بارے میں ان کی تقریر خاصی جارحانہ تھی ان کے لب و لہجہ میں ’ ناراضی‘‘ کا عنصر نمایاں تھا یہی وجہ ہے وہ تین بڑے سیاسی حریفوں پر برستے رہے اور ان کا نام لے کر آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ میاں نواز شریف کی’’ انڈیمنٹی بانڈ‘‘ جمع کرائے بغیر بیرون ملک جانے کی اجازت پر نالاں نظر آتے تھے اگرچہ اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کی ’’شکست‘‘ کو ’’ جیت ‘‘ ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن وزیر اعظم نے بین السطور موجودہ اور آئندہ چیف جسٹس کی توجہ عدالتی امور کی طرف مبذول کرائی اور کہا کہ’’ امیر اور غریب ‘‘ کے لئے انصاف کے پیمانے یکساں ہونے چاہیں وزیر اعظم نے لاہور ہائی کورٹ میں’’ شکست‘‘ کو قبول نہیں کیا اور اپنے ’’بیانیہ‘‘ پر کھڑے ہیں وزیر اعظم کی تقریر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں ’’دبائو ‘‘کے ماحول کا سامنا ہے اور اس صورت حال میں اپنی سیاسی پوزیشن کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں مولانا فضل الرحمنٰ کی طرف سے جنوری2020ء میں ’’سیاسی افق‘‘ میں تبدیلی کے’’ اشارے‘‘ اور بلاول بھٹو زرداری کے جلد ہمارے وزیر اعظم ہونے کے دعوے پر بھی وزیر اعظم عمران خان کا شدید رد عمل فطری امر ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر دھمکی دی’’ کسی ایک کو بھی معاف نہیں کروں گا ، چاہے سارے اکٹھے ہوجائیں‘‘ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ’’ مجھے کہا جاتاہے کہ نواز شریف کو کچھ ہوا تو میں ذمہ دار ہوں گا ، 800 سے زائد قیدی پچھلے دور میں جیلوں میں مرگئے ان کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ مولانا فضل الرحمنٰ کے دھرنا ختم کرنے اور میاں نواز شریف کے علاج کے لئے بیرون ملک جانے سے سیاسی ماحول میں پائی جانے والی کشیدگی میں کم ہونے کا امکان نظر آتا تھا لیکن وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ خطاب سے جہاں ان کی ’’زخم خوردگی ‘‘ عیاں تھی وہاں وہ اپنے سیاسی مخالفین سے’’ دودو ہاتھ‘‘ کی تیاری کر رہے ہیں لیکن میاں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی نے وزیر اعظم کو اپنی ’’ بے بسی ‘‘ کا احساس دلا دیا ہے وہ اپنی اس ’’بے بسی‘‘ کے احساس کو ختم کرنے کے لئے کوئی بڑا ’’سیاسی فیصلہ ‘‘کر سکتے ہیں وہ اتحادی جماعتوں کی’’ بیساکھیوں‘‘ پر اقتدار قائم رکھنے کی بجائے عوام کی عدالت سے بھی رجوع کر سکتے ہیں پچھلے کچھ دنوں سے حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دیا ہے سیاسی تجزیہ کار عمران خان کے خطاب کے بارے میں طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں لیکن یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کہ جنوری 2020 ء میں سیاسی منظر تبدیل ہو سکتا ہے اور عمران خان بھی آنے والے دنوں میںچونکا دینے والے فیصلے کر سکتے ہیں ۔دھرنا ختم ہونے کے بعد لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا لیکن عمران خان نے دوبارہ جے یو آئی (ف) کو ایک ماہ دھرنا دینے کا چیلنج دے دیا ہے انہوں نے جے یو آئی ف کے دھرنے کو اسلام آباد میں’’ سرکس ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ دھرنے سے ہماری کابینہ کے کچھ لوگ گھبرا گئے تھے کیونکہ وہ کمزور دل رکھتے ہیں لیکن میں نے انہیں سمجھایا کہ تسلی رکھیں کچھ نہیں ہو گا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں دھرنا ’’سپیشلسٹ‘‘ ہوں ۔وزیراعظم پر اپوزیشن کی طرف سے دبائو بڑھ گیا ہے وہاں ان کی اتحادی جماعتوں نے بھی حکومت کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کر دیا ہے یہ الگ بات ہے سیاسی حلقوں میں ہونے والی ’’چہ میگوئیوں اور قیاس آرائیوں ‘‘ پر چوہدری پرویز الہی کو بھی وضاحتی بیان جاری کرنا پڑا۔ وزیر اعظم نے تحریک انصاف میں سے کسی کو بھی عمران خان کی جگہ وزیراعظم بنا نے کے اپوزیشن کے اندرون خانہ مطالبہ عوامی سطح پر تذکرہ کر کے بظاہر اپنی کمزوری کا اظہار کیا ہے ۔وفاقی کابینہ نے بھی محمد نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس کی یہ وجہ نہیں کہ حکومت نے نواز شریف پر کوئی احسان کیا ہے بلکہ وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم نے لاہور ہائیکورٹ کے عبوری فیصلے کو چیلنج نہ کرنے کے بارے میں پوری وفاقی کابینہ کو باور کرا دیا کہ 99فیصد کیسز میں سپریم کورٹ ریلیف نہیں دیتی لہذا ہمیں اس فیصلے کو چیلنج نہیں کرنا چاہیے اگر جنوری2020ء میں لاہور ہائیکورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ نہ دیا تو ہم ضرور اپیل میں جائیںگی
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی بیرون ملک موجودگی کے دوران پاکستان مسلم لیگ(ن) کا’’ پارلیمانی ایڈوائزری گروپ‘‘ پارٹی امور کی نگرانی کی ذمہ داری سونہ دی گئی ہے پارلیمانی پارٹی کے لیڈر خواجہ آصف کی سربراہی میں پارلیمانی ایڈوائزری گروپوں کے اجلاس کی صدارت کریں گے جب کہ اس دوران میاں شہباز شریف کا پارٹی رہنمائوں سے رابطہ رہے گا وہ گاہے بگاہے وڈیو لنک کے ذریعے پارٹی اجلاسوں سے خطاب کریں گے میاں شہباز شریف نے اپنی واپسی کے شیڈول سے آگاہ نہیں کیا تاہم انہوں نے کہا کہ جوں ہی میاں نواز شریف کی طبعیت سنبھلی وہ پاکستان واپس آجائیں گے میاں نواز شریف کی فوری واپسی ممکن نہیں لیکن توانا اور صحتمند نواز شریف بھی زیادہ دیر تک بیرون ملک نہیں رہے گا
اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل رہبر کمیٹی نے بھی عوام کی مشکلات کے پیش نظر جمعیت علما اسلام (ف) کے پلان بی کے تحت ملک گیر میں دئیے جانے والے دھرنے ختم کرا دئیے ہیں اس بارے میں اپوزیشن جماعتوں نے جمعیت علما اسلام (ف) کو’’ فیس سیونگ‘‘ دے کر دھرنے ختم کرنے کا فیصلہ رہبر کمیٹی کے پلیٹ فارم پر کیا ہے تاہم وفاقی حکومت پر دبائو بڑھانے کے لئے احتجاجی مظاہرے جاری رہیں گے اس سلسلے میں رہبر کمیٹی نے تحریک انصاف کے خلاف ’’فارن فنڈنگ ‘‘ کیس کی فوری سماعت کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے مظاہرہ کیا ہے جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے جنوری 2020ء میں سیاسی منظر تبدیل ہونے کی یقین دہانی سے ’’دھرنا ‘‘ ختم کیا ہے مولانا فضل الرحمنٰ حکومت کی بجائے’’ مقتدر قوتوں‘‘ کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کرنے پر آمادہ ہوئے ہیںمولانا فضل الرحمنٰ اور چوہدری پرویز الہی ’’یقین دہانیوں ‘‘ کے بارے میں ’’راز داری‘‘ کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے جنوری2020ء میں ’’ سیاسی منظر ‘‘ میں کس تبدیلی کی توقع کی جارہی ہے یا یہ اپوزیشن کی محض’’ خوش فہمی‘‘ ہے اس سوال کا جواب 2020ء کا سورج طلوع ہونے کے بعد ہی مل سکے گا۔