سیاسی اور معاشی بحران سبق سیکھنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کا بھی ذریعہ ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں ڈیڑھ سال گزر چکا ہے۔ ڈیڑھ سال میں اس حکومت کو اپنی پرفارمنس کی وجہ سے اپوزیشن اور بعض دوسرے غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے شدید نکتہ چینی کا سامنا رہا ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی چوٹی کی قیادت تو احتساب کے شکنجے میں کس دی گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو کرپشن کے مقدمہ میں سزا ملنے پر جیل بھیج دیا گیا اور سابق صدر آصف زرداری بد عنوانی کے کئی مقدمات بھگت رہے ہیں، وہ بھی جیل میں ہی ہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف تو خرابی صحت اور ڈاکٹروں کی طرف سے ان کی صحت سے متعلق تشویش ناک رپورٹ آنے کے بعد عدالت سے ضمانت اور بیرون ملک جانے کی اجازت لے کر علاج کیلئے لندن چلے گئے۔ آصف زرداری اور ان کی پارٹی کی کوشش ہے کہ انھیں بھی صحت کی بنیاد پر جیل سے چھٹکارا مل جائے۔
جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اپنی بات کے پکے نکلے، انھوں نے اعلان کے مطابق اسلام آباد میں ہزاروں کارکنوں اور وفاداروں کے ساتھ آزادی مارچ کرتے ہوئے قریباً دو ہفتے تک پشاور موڑ پر دھرنا دیا، اس دھرنے نے ، جو پرامن تھا، پی ٹی آئی کی حکومت کو خاصا پریشان رکھا۔ مولانا حکومت کے اعصاب پر چھائے رہے۔ مولانا کے دھرنے کے دوران دارالحکومت سمیت ملک کے سیاسی حلقوں میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہوتی رہیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات گردش کرتی رہی کہ مولانا کے دھرنے کی پشت پر کوئی طاقت موجود ہے، اسٹبلشمنٹ کا ایک حلقہ مولانا کو سپورٹ کر رہا ہے۔ مولانا تن تنہا اتنے بڑے دھرنے کا انتظام نہین کر سکتے تھے۔ اس دھرنے کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی صحت کی خرابی کی خبر اور علاج کی غرض سے ان کی ضمانت کی کوششیں شروع ہوئیں۔ مولانا کے دارالحکومت میں دھرنے کے خاتمے پر اور پلان بی کے عمل درآمد شروع ہوتی ہی سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کرنے کی عدالت نے اجازت دے دی۔ نواز شریف ایئر ایمبولنس کے ذریعے بیرون ملک روانہ ہو چکے ہیں۔ شیخ رشید نے کئی دن پہلے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ نواز شریف کو علاج کیلئے لندن لے جانے کے لئے قطر میں ایک ایئر ایمبولنس تیار کھڑی ہے۔ ان کی بات سچ ثابت ہوئی، یہ وہی ایئر ایمبولنس ہے جو نواز شریف کو منگل کے روز لاہور سے لے کر لندن روانہ ہو گئی۔ بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ کو علاج کیلئے بیرون ملک بھجوانے میں دھرنے کا بھی بڑا کردار ہے۔
دھرنے کے دوران پھیلنے والی اطلاعات اور سیاسی ماحول پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان نے اتوار کے روز بنی گالہ مٰن اپنی اقامت گاہ پر ایک طویل مشاورتی اجلاس بلایا جس میں حکومت کی پالیسیوں، احتساب کے عمل سمیت مختلف امور پر غور کیا گیا۔ یہ اجلاس ایک طریقے سے اپنی پالیسیوں اور ملکی حالات کا جائزہ لینے کی کوشش تھی۔ اس کے بعد وزیراعظم نے پیر کے روز ایک اہم تقریر کی جس میں انھوں نے ایک اعتراف تو یہ کیا کہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹیو تو ہیں لیکن کئی معاملات ان کی دسترس میں نہیں۔ نواز شریف کے علاج کیلئے بیرون ملک جانے کا عدالتی فیصلہ انھوں نے تسلیم تو کیا لیکن انھوں نے اپنے دل کی بات بھی کہہ ڈالی کہ طاقتور اور امیر لوگ یہاں انصاف حاصل کر لیتے ہیں جبکہ عام آدمی عدالتوں سے وہ سہولتیں نہیں لے سکتے جو دولت مند اور بااثر لو گ لے لیتے ہیں۔ اس لئے انھوں نے موجودہ اور آنے والے چیف جسٹس صاحبان سے مخاطب ہو کر کہا کہ پاکستان میں امیر اور غریب کیلئے انصاف کا یکسان نظام قائم کرنے میں مدد دی جائے۔
وزیراعظم نے اکائونٹ ابیلیٹی کا عمل جاری رکھنے اور ہر کرپٹ شخص کو احتساب کے شکنجے میں لانے کا ایک بار پھر اعلان کیا۔ سیاسی مخالفین پر بھی انھوں نے اپنا غصہ نکالا۔ بنی گالہ کے اجلاس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم اسد عمر تو واپس کابینہ میں آ گئے۔ اب کابینہ میں توسیع اور قلمدانوں کی تبدیلی کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔
دھرنے نے پی ٹی آئی حکومت کو اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینے اور عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور دوسرے مسائل کے شکنجے سے نکالنے کی حکمت عملی بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کو ’’ سب اچھا ہے‘‘ اور ’’ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہے‘‘ کے بیانیے پر اکتفا کرنے کی بجائے حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا چاہیے۔ رائے عامہ کو نظر انداز کئے بغیر اپنی پالیسیوں میں ترمیم لانی چاہیے۔ خاص طور پر مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے ایک موثر حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ حکومت کو اپنی انا کے خول سے باہر آ کر اپنے سیاسی اتحادیوں کی مشاورت سے آگے بڑھنے کی سوچ اور پالیسی اپنانا ہو گی۔ ڈیڑھ سال گزر چکا ہے، اگلے ڈھائی تین سال بہت اہم ہے۔ کسی بھی حکومت کا آخری سال الیکشن کا سال تصور ہوتا ہے، اس سے پہلے ان سالوں میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کو پاکستانیوں کیلئے کچھ کرنا ہو گا ورنہ انھیں سیاسی طور پر اس کی بڑی قیمت دینی ہو گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024