ایک وقت تھا جب ابن الہیثم، جابر بن حیان،جابر بن سنان، الخوارزمی، الکندی، الفارابی، البیرونی، ابن سینا، عمر خیام اور ابن خلدون جیسے مسلمان سائنسدان ایجادات کرتے ، تھیوریاں پیش کرتے تو دنیا اُس سے مستفید ہوتی تھی لیکن آج کے جدید دور میں دنیا ایجادات کر رہی ہے اور مسلمان اُس کے سب سے بڑے صارف بنے ہوئے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ ہم آپسی لڑائیوں میں اُلجھ گئے، فرقہ بندیوں میں پڑ گئے، اور خاص طور پر آخری چار سو سالوں میں ہم مزید زوال پذیر ہوگئے۔ اس قدر زوال پذیر کہ اسلام کے ظہور میں آنے سے لے کر 1500ء تک یعنی پہلے ہزار سالوں میں ہم نے کم و بیش ایک ہزار سائنسدان پیدا کیے جبکہ آخری چار پانچ سو سالوں میں ہم نے محض 8یا 10سائنسدان پیدا کیے۔ ہماری تعلیم میں وہ جدت نہیں رہی جس کی وجہ سے آج مغرب ہم پر غالب آگیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس سارے عمل میں ہم اسلام کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ اسلام میں دنیاوی تعلیم کا تصور نہیں ہے۔ یہ سراسر غلط مفروضہ قائم کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ آپؐ نے دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ہم اکثر جنگ بدر کے حوالے سے پڑھتے ہیں ، جنگ بدر کے جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں کسے علم نہیں۔ قرآن کریم میں ہے۔’’تو آپؐ معاف فرماتے رہئے ان کو اور درگزر فرمایئے۔ بے شک اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے احسان کرنے والوں کو۔‘‘حضورؐ نے اسیران بدر کو صحابہ میں تقسیم کرکے انہیں آرام سے رکھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے اپنے محبو ب قائد کے فرمان پر اس حد تک عمل کیا کہ خود کھجوریں اور سوکھی روٹی کھا کر قیدیوں کو کھانا کھلایا۔ یہ قیدی صحابہ کے حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان میں بہت سے مشرف بہ اسلام ہوئے جن میں عباس بن عبدالمطلب اور عقیل بن ابو طالب وغیرہ شامل تھے۔ ان قیدیوں کے بارے میں حضورؐ نے صحابہ کرام سے مشورہ طلب فرمایاتو حضرت ابو بکر صدیق نے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ آپ ؐ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اتفاق کرتے ہوئے اسیرانِ جنگ سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ جوقیدی غریبی کی وجہ سے فدیہ نہیں دے سکے اوروہ پڑھے لکھے تھے، تو آپؐ نے دس دس صحابہ کو پڑھانے کے عوض رہا کرنے کا حکم فرمایا۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے مسلمان لگائیں۔ حالانکہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ کافر تھے اور اسلام کی تعلیمات سے بالکل نابلد تھے، پھر بھی آپؐ نے دنیاوی تعلیم کا احساس کرتے ہوئے صحابہ کو دنیاوی تعلیم سے بھی روشناس کروایا تاکہ وہ زندگی کے کسی عمل میں پیچھے نہ رہ جائیں۔
آپؐ کی تعلیمات کی روشنی دینی و نیاوی تعلیم پر فوقیت دینا ہی اصل تعلیم ہے۔ افسوس کہ آج بھی مسلمان تعلیم میں پیچھے ہے۔طرح طرح کے جھگڑوں میں پڑ کر وقت کو برباد کررہے ہیں۔ہمارے لئے حضور کی زندگی ہر شعبے میں راہِ عمل او رراہِ نجات ہے۔ ہم تمام مسلمانوں کو حضورؐ کو ہی رول ماڈل بنانا چاہئے۔ پھر ایک موضوع اور ضعیف حدیث مبارکہ ہے کہ ’’علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین بھی جانا پڑے‘‘ اس حدیث میں کتنی بڑی صداقت ہے، اس کا علم آپ کو یہ حقیقت جان کر ہو گا کہ جدید اقوام کی تمام تر ترقی اور خوشحالی کا راز علم اور صرف علم ہے ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم باتیں تو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی کرتے ہیں لیکن ہم نے آپؐ کی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اگر پاکستان میں دی جانے والی تعلیم کا موازنہ دنیا سے کیا جائے تو پاکستان 125 ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت 103 اور بنگلہ دیش 111ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ اس کے برعکس فن لینڈ دنیا کی معیاری تعلیم کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے جہاں تعلیمی ادارے حکومت کے زیر سایہ چلتے ہیں، فن لینڈ کے تعلیمی ادارے میں طالب علموں کو کتابی کیٹرا بنانے کے بجائے ان کو پریکٹیکل ہنر سیکھایا جاتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ فن لینڈ کا معیاری تعلیمی نظام دنیا بھر میں ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ جہاں تمام شہری ایک جیسی تعلیم حاصل کرتے ہیں چاہے کوئی نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہو یا منہ میں سونے کی چمچ لے کر پیدا ہوا ہو۔ تعلیمی نظام کسی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اسی لئے اس ملک کے شہر اور دیہات میں بسنے والوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ سب کو ایک ہی سی تعلیم دی جاتی ہے۔ فن لینڈ نے امریکا جیسے سپرپاور کو بھی تعلیمی میدان میں چت کردیا ہے۔
آپ جاپان کی مثال لیں ،تیسری جماعت تک وہ بچوں کو صرف ایک مضمون سکھاتے ہیں وہ صرف’’اخلاقیات‘‘ اور ’’آداب‘‘ ہیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا جس میں آداب نہیں اس میں دین نہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والوں کو حضرت علیؓ کا قول کہاں سے ملا اور مسلمانوں و پاکستانیوں کو حضرت علیؓ کا قول معلوم کیوں نہیں؟۔یا پھر اس پر عمل کیوں نہیں ؟یا پھر ہمیں معلوم ہی نہیں کہ آپ ؐ کو تعلیم کے حوالے سے کس قدر شدید احساس تھا جس سے ہم آج بھی بے خبر نظر آتے ہیں۔
آج اقوام عالم مختلف مسائل میں بٹا ہوا ہے۔ اس تقسیم کی وجہ کوئی اور نہیں ہم خود ہیں ہم نے آپؐ کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے۔ جو قوم اپنے اجتماعی نظام،قوت واستحکام اور نظم وضبط قائم کرنے کیلئے اپنے بھائی کا بوجھ خوشی اور محبت کے ساتھ اُٹھا کر برداشت نہیں کرتی تو دشمن ان پر مسلط ہوکرزبردستی ان کے سروں پر بیٹھ جاتا ہے اور پھرجبراًوکرھاًناگواری کے ساتھ دشمن کابوجھ اٹھاتی ہے۔بلاشبہ سچ یہ ہے کہ جناب رسولؐنے امت کی خیر خواہی کا اکمل طریقے سے حق ادا فرمایا ہے اورکسی قوم کوکسی نے اس سے زیادہ اسباق نہیں پڑھائے ہونگے ۔جیسا کہ رسول ؐنے اپنی امت کی رہنمائی فرمائی ہے لیکن کاش کہ امت محمدیؐخواہشات نفسانی کی پیر وی اور یہود ونصاریٰ کا اتبا ع چھوڑ کر جناب رسول اکرم ؐکی تعلیمات کو اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کیلئے بنیا د بنادے اور امت کی کامیابی اور فلاح کیلئے جدوجہد کرے تو امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں پر چھائے ہوئے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں کا جلد خاتمہ ہواور مسلمان طلوع سحر کی نوید سن لیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ رسے وایت ہے کہ جناب رسول اﷲؐ نے فرمایا بیشک تم میں سے ہر ایک (مسلمان) اپنے بھائی (دوسرے مسلمان) کا آئینہ ہے پس اگر اس نے اس مسلمان میں کوئی بری اور تکلیف دہ چیز دیکھی تو اس چیز کو اس سے دور کردے ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’انما المٔومنون اخوۃ ‘‘تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔آج خالص مادی دور میںشاید اس کو سمجھنا مشکل ہو، یورپ کے خاص مادی اور میکانکی نظام زندگی نے ساری انسانی قدریں خاک میں ملادیں۔ اخبار میں اکثر یہ خبریں بھی آنے لگی ہیں کہ ماں نے بیٹے کو قتل کیا، نوزائیدہ بچہ کو اسکی ماں کوڑے دان میں ڈال گئی، ماں بچیوں سمیت دریامیں کود گئی وغیرہ وغیرہ۔ بعثت نبوی سے پہلے عربوں میں ہزار جاہلیت کے باوجو د یہ درندگی نہ تھی، وہ بھائی کے رشتۂ محبت سے آشنا تھے، اسی رشتے کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے ایک بھائی کا بھائی سے جو تعلق ہوتا ہے وہی تعلق ایک ایمان والے کا دوسرے ایمان والے سے ہوتا ہے، عالمی اخوتِ اسلامی کی یہ دعوت ہی نہیں بلکہ حقیقت ایمان کایہ نتیجہ ہے جس کو آیت مذکورہ میں بیان کردیا گیا ہے اور نتیجہ تب ہی ظاہر ہو گا جب ایمان اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پرعمل کا جذبہ ہوگا۔
آج 12ربیع الاول ہے، مسلمانوں کی تیسری عید مبارک ہے، گلی گلی میں شایان شان انداز میں اس دن کو منایا جا رہا ہے۔ ہر طرف چراغاں کیا گیا ہے تاکہ حضورؐ کی ولادت باسعادت کو عقیدت کے ساتھ منایا جا سکے۔ ملت کا ہر فرد اس طرف کوشاں ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بھرپور انداز میں اس دن کو منا کر آپؐ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔ لیکن حیرت ہے کہ کوئی شخص اُن کی دی ہوئی تعلیمات پر چلنے کو تیار نہیں، آپ ؐنے کہا جھوٹ نہ بولو، کسی کا حق نہ مارو، وعدہ خلافی نہ کرو، امانت میں خیانت نہ کرو، ملاوٹ نہ کرو، یتیم کا حق کھانے سے باز رہو، مسکین کی خدمت کرو، بڑوں کا احترام کرو اور چھوٹوں کے ساتھ ادب سے بات کرو،کسی کا حق نہ مارو، کسی کو نقصان نہ پہنچائو، چوری نہ کرو، کرپشن نہ کرو، کسی کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالو وغیرہ مگر مجال ہے کہ ہم ان تعلیمات پر کبھی عمل پیرا ہوئے ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام باتیں ’’کفار‘‘ نے ’’چوری‘‘ کر لیں اور ہم محروم رہ گئے ہیں سچ بولنے سے لے کر کسی کی حق تلفی نہ کرنے تک جیسے تمام اصول غیروں نے اپنا لیے اور ہم اُن سے محروم رہ گئے ہیں۔ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ اور کب ہوا؟ یہ ہم سب کو سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024