امریکہ کی اپنی ایک سرشت ہے جس کے ہاتھوں وہ پاکستان پر الزامات کی بارش کرنے پر مجبور ہے۔ایک زمانہ تھا کہ صدر جانسن ایوب خان کی آنکھوں کا تارا تھا اور ایوب خان اس کے رخسار تھپتھپاتے تھے۔ پھر صدر کینیڈی کا دورا ٓیا جب ان کی بیگم جیکو لین ہمارے ایک ساربان بشیر کو امریکہ ساتھ لے گئیں۔پاکستان کو امریکی امداد مل رہی تھی۔امریکہ سے جو چیز آتی تھی اس پر یو ایس ایڈ کی مہر لگی ہوتی تھی اور دونوںملکوں کے جھنڈے ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے نظر آتے تھے۔مگر اسی امریکہ نے بھٹو کو بنیادی حقوق کے ایجنڈے کا نشانہ بنایا اور پاکستان کے لئے امداد صفر ہو کر رہ گئی۔یہی امریکہ اس وقت پاکستان پر خزانوں کے منہ کھولنے پر مجبور ہو گیا جب سوویت روس کی افواج نے افغانستان میں پیش قدمی کی اور اصل خطرہ یہ تھا کہ روسی افواج گوادر کی بندرگاہ اور پاکستان کے گرم ساحلوں پر قابض ہونا چاہتی ہیں۔روس کے اس خطرے کے خلاف پاکستان کھڑا ہو گیا۔ اور دنیا کی حمائت سے ہم نے یہ جنگ یوں جیتی کہ مشرقی یورپ روس کے چنگل سے نکل گیا۔ پھر خود روس ٹوٹ پھوٹ کا شکا ہو گیا،امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہنی مون کا یہ موسم بہت مختصر ثابت ہوا۔ پھر امریکہ اپنی اصلیت پر اتر آ یاا ور پاکستان کے لئے ڈانٹ ڈپٹ اس کا معمول بن گیا، نائن الیون کے بعد ایک بار پھرامریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی اور ہمارے بونے بونے لیڈر اس بات پر اتراتے نہیں تھکتے تھے کہ پاکستان کی اہمیت اس قدر ہے کہ وہ جب چاہیں امریکہ میںجس کسی لیڈر سے فون پر بات کر سکتے ہیں۔مگر یہ ہنی مون بھی بہت مختصر عرصے کے لئے تھا کیونکہ امریکہ نے ڈو مور کا مطالبہ شروع کر دیا تھا۔ یہ سن سن کر فوجی صدر مشرف کا سانس پھول گیا تھا اور میںنے ا سکی گھبراہٹ کا مشاہدہ آرمی ہائو س کی دو ہزار چھ کی ایک میڈیا بریفنگ میں خود کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے کہہ دیا کہ پاکستان امریکی امداد کھا گیااورا سنے وار آن ٹیرر میں اپنا کردار ادا نہیں کیا، امریکی صدر کو کرارا جواب وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں دیا ہے کہ صدررٹرمپ کے طوفانی تھپیڑے پر تاریخ کو اپنا ریکارڈ درست کر لینا چاہئے ۔ پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ نائن الیون کے حادثات میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا پھر بھی پاکستان کو مجبور کیا گیا کہ وہ امریکی جنگ کا حصہ بنے جس میں امریکہ نے اب تک کے اٹھارہ برسوںمیں صرف بیس ارب ڈالر کی امداد دی مگر پاکستانی معیشت کو سوا سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ۔ ساتھ ہی امریکی جنگ پچھتر ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی شہادت کا باعث بنی۔ وزیر اعظم عمران نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان کے سوا سو ارب ڈالر کا نقصان امریکہ کب بھرے گا اور یہ بھی نہیں کہا کہ امریکہ کو ساری جنگوں میں پچھتر ہزار جانوں کا نذرانہ نہیں دینا پڑا۔ یوں ہمارے شہیدوں کا خون کس کی گردن پر ہے۔
امریکہ کو عادت سی ہو گئی ہے کہ وقفے وقفے سے ڈو مور کی گردان کر دیتا ہے۔ مگر امریکہ کو احساس نہیں کہ اب پاکستان میں وہ فوجی قیادت نہیں جو کسی ادنی سے امریکی حکومتی اہل کارکی نصف شب کی ٹیلی فون کال پر کانپ کر رہ جائے۔ آج پاکستان میں ایک جمہوری حکومت ہے اورسا تھ ہی فوجی قیادت بھی قومی جذبات کوسمجھتی ہے اور الٹا امریکہ سے کہتی ہے کہ ڈو مور کی باری اب جناب ا ٓپ کی ہے۔ امریکہ پاکستان کو ہڑپ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ نہ تو عراق ہے ۔ نہ افغانستان۔ نہ سوڈان۔ نہ مصر ۔ یہ ایٹمی پاکستان ہے جس کی مسلح افواج کے ساتھ بائیس کروڑ عوام سینہ تانے کھڑے ہیں۔ پاکستانی قوم کا ارادہ امریکہ سے لڑنے کا نہیں بلکہ وہ امریکہ کا تن کر مقابلہ کرتے ہوئے مرنے کے جذبات سے سرشار ہے اور امریکہ جانتا ہے کہ جو قومیں مرنے سے نہیں ڈرتیں ،۔ انہیں کسی لڑائی میں شکست نہیں دی جا سکتی۔ بس یہ یونہی دھمکا کر کام نکلوانے کی کوشش کرتا ہے۔
آج امریکہ بے صبرا کیوں ہو گیا ہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو زیر وزبر کر دینے کے باوجودپاکستان کو دیوالیہ نہیں کیا جا سکا۔ اس کے دوست پاکستان کی دامے درمے سخنے امداد کے لئے تیار ہیں ۔ آج ہی سعودی پیکیج کا پہلا ایک ارب اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے اکائونٹ میں جمع ہو چکا۔ چین کے خاموش وعدے اپنی جگہ پر اور متحدہ عرب امارات نے محکم انداز میںپاکستان کا حوصلہ بلند کیا ہے۔ امریکی غیظ و غضب کی دوسری ا وراصل وجہ سی پیک کا عظیم الشان منصوبہ ہے جو پاکستان کے لئے گیم چینجر ہے اور جس کے بل بوتے پر چین کا ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ تین برا عظموں کو تجارتی روابط میں استوار کر دے گا اور عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی ساکھ نہ ہونے کے برابر ہو جائے گی، امریکہ اس آگ میں بھی جل بھن رہا ہے کہ اس کی افواج افغانستان کے چند شہروں کے حصار سے باہر قدم رکھنے کے قابل نہیں مگر پاکستان کی مسلح افواج نے عالمی دہشت گردوں کو چن چن کر ہلاک کر دیا ہے ۔ پاکستان کے اس شاندار کردار پر امریکہ کا خون کھولے گا نہیں تو اور کیا ہو گا۔
پاکستان کو نیچا دکھانے اور چت کرنے کے لئے وارا ٓن ٹیرر میں دھکیلا گیا۔ یہ امریکہ کی خام خیالی تھی کہ پاکستان بری طرح پھنس گیا ہے۔ اس کے اندرکشمکش شروع ہو جائے گی۔ باہر سے افغان اوربھارتی دہشت گرد اس کا گھیرا تنگ کر دیں گے اور پاکستان کا کچومر نکالنے کے لئے آخری مرحلے پر اسرائیل کو حرکت میں لایا جائے گا مگر اللہ کے فضل سے پاکستان لوہے کا چنا ثابت ہوا۔ یہ اندرونی انتشار کا شکار نہیں ہوا۔ یہاں خانہ جنگی شروع نہیں ہوئی اور بیرونی دہشت گردوں کو پھندوں میں کس دیا گیا۔اب رہ گئی پاکستان کی کمزور معیشت تو اسکی بحالی کے دو طریقے کامیاب ثابت ہوں گے ، ایک تو دوست ممالک سے مدد ملے گی اور دوسرے کرپشن کی لوٹ مار واپس لی جائے گی۔ اب پاکستان نے مالیاتی دہشت گردوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ کر دیا ہے۔ پاکستان کو ا س جنگ میں بھی کامیابی ملے گی اور امریکہ کو ایک بار پھر خجالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی ڈور مور کے مطالبے پر پاکستان کو اوپن ڈی بیٹ کا مطالبہ کرنا چاہئے یہ ڈیبیٹ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی ہو سکتی ہے اور ٹویٹ کے میدان میں بھی اس کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ امریکہ بڑے بول بولنے کا عادی ہے ،۔ اب اسے بھی جواب میں یہی لہجہ سننے کو ملے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے ہر پاکستانی کے دل کی آواز پر ٹرمپ کو کھری کھری سنائی ہیں اور سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ سچ ہے۔ سچ کے سوا کچھ نہیں۔ امریکہ کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے اور الزامات اچھالنا اس کے لئے فیشن ہے ۔ پاکستان اب وہ ملک نہیں جوکان لپیٹ کر امریکی طعنوں کو سنتا رہے ،اس لئے کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024