اللہ نے قرآن میں اپنے آخری نبیؐ کی زندگی کواسوۂ حسنہ یعنی بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ آپ ؐ کو ’’خلق عظیم‘‘ یعنی اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز کیا گیا اور تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا۔ آپؐ بچپن میں اپنی رضاعی ماں حلیمہ بی بی کا دودھ ایک جانب سے پیتے جبکہ دوسری جانب اپنے رضاعی بہن بھائیوں کے لیے چھوڑ دیتے۔ بخاری کی روایت کے مطابق آپؐ نے لڑکپن میں ایک شادی میں شرکت کا ارادہ کیا جب تقریب کے مقام پر پہنچے تو آپؐ پر نیند غالب آ گئی جب بیدار ہوئے تو شادی کا گانا بجانا ختم ہو چکا تھا۔ آپؐ نے نوجوانی میں مکہ میں امن اور انصاف کے لیے ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے انجمن بنائی۔ مکہ کے سردار نے ایک تاجر کی بیٹی کو اغواء کر لیا آپؐ نے انجمن کے رضا کاروں کے ہمراہ مکی سردار کے گھر کا پرامن محاصرہ کر کے سماجی دبائو ڈال کرلڑکی کو بازیاب کرایا۔
حضرت خدیجہؓ مکہ کی امیرتاجر خاتون تھیں آپؐ ان کامال تجارت لیکرجاتے اورامانت دیانت اور صداقت کے اصولوں پر عمل کر کے زیادہ نفع حاصل کرتے۔ حضرت خدیجہ ؓنے آپؐ کے اخلاق اورکردار سے متاثر ہو کر آپؐ سے نکاح کر لیا۔ آپؐ کے چچا ابو طالب نے نکاح کے خطبے میں کہا ’’آپؐ کے کردار کا مقابلہ مکہ کاکوئی نوجوان نہیں کر سکتا۔
اگرچہ آپؐ مالدار نہیں ہیں لیکن دولت تو آنی جانی چیز ہے آپؐ کے پاس پائیدار دولت، امانت اوردیانت ہے۔ (انساب الاشراف)
ظہور نبوت سے پہلے ہی اللہ کے رسولؐ صادق اور امین مشہور تھے۔ مکہ کے قریش تنازعات کے لیے آپؐ کو ثالث بنایا کرتے۔ وحی کے نزول کے بعد آپؐ مضطرب ہو گئے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کودلاسا دیا اور کہا ’’خدا کی قسم اللہ کبھی آپؐ کو بے آبرو نہیں کرے گا آپؐ قریبی رشتے داروں سے صلہ رحمی کرتے ہیں کمزوراورناتواں افراد کا بوجھ اٹھاتے ہیں مفلس اور نادار کواپنی نیک کمائی سے حصہ دیتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں حق کی وجہ سے کسی پر کوئی مصیبت آ جائے تو آپؐ اس کی مدد کرتے ہیں اوردست گیری فرماتے ہیں۔ (بخاری) ظہور نبوت کے بعد جب آپؐ نے تبلیغ کا آغاز کیا تو انتہائی سخت مشکلات ا ورمصائب کا سامنا کرنا پڑا آپؐ کے بارے میں اشتعال انگیز زبان استعمال کی جاتی مگر آپؐ نے اخلاق اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نرم لہجے میں جواب دیا۔ آپؐ جب مکہ سے مدینہ ہجرت پر مجبورہوئے تو اپنے اور اسلام کے دشمنوں کی امانتیں ان کوواپس کیں۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا…؎
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
ہم ریاست مدینہ کا نام تو لیتے ہیں مگر اس کے تصور سے کوسوں دور نکل چکے ہیں۔ آپؐ نے مدینہ میں پہلی مسجد نبوی کی زمین قیمت ادا کرکے خریدی۔ مسجد کی تعمیر میں خود مزدور کے طور پر حصہ لیا۔ انصارؓ نے مسجد کی تعمیر سنگ و خشت سے کرنے کی پیشکش کی۔ آپ ؐ نے یہ پیش کش مسترد کردی اور قرآن کی روح کے مطابق مسجد کی دیواریں کچی اینٹوں سے اٹھائیں اور چھت کیلئے کھجور کے درخت کی شاخیں استعمال کی گئیں۔
ہم عاشق رسول ؐ ہونے کا دعوے تو کرتے ہیں مگر اطاعت رسول ؐ پر آمادہ نہیں ہوتے۔ مسجدوں کی تعمیر پر کروڑوں روپے صرف کر دیتے ہیں مگر اللہ کے محروم اور مفلس بندوں پر خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اللہ کی رضا یہ ہے کہ اس کے بندے سادگی کفایت شعاری اختیار کریں اور اعتدال میں رہیں علامہ اقبال نے مسلمانوں کے عملی تضاد کو خوبصورت انداز میں بیان کیا۔…؎
میں ناخوش و بے زار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اک اور بنا دو
اللہ کے رسول ؐ نے مدینہ کے انصار اور مکہ کے بے گھر مہاجرین کے درمیان مواخات کا معاہدہ کرایا جس کے مطابق انصار نے مہاجرین کو اپنے گھروں، کاروبار اور کھیتی باڑی میں شریک کر لیا تاکہ کوئی مسلمان بھوکا اور محروم نہ رہے۔ مواخات کا یہ اسلامی سنہری اصول اسلامی جمہوریہ پاکستان پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ نے مواخات مدینہ کے علاوہ مسلمانوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کا معاہدہ بھی کرایا جو آٹھ نکات پر مشتمل تھا اس معاہدے کے نکتہ نمبر 2میں درج تھا ’’سارے راست باز مسلمان اس شخص کے خلاف ہوں گے جو ان پر زیادتی کرے گا اور مسلمانوں کے درمیان فساد پھیلائے گا چاہے وہ کسی کا اپنا لڑکا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
ریاست مدینہ میں رہنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک میثاق بھی کرایا گیا جسے میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس میثاق کے مطابق تمام مسلم اور غیر مسلم شہریوں کو مساوی حقوق دیئے گئے ۔ اللہ کے رسول ؐ جنگوں کے دوران بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے تھے جنگ بدر میں دو صحابیؓ تاخیر سے پہنچے آپ ؐ نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ مکہ کے قریش نے ان کو روک رکھا تھا اور اس شرط پر آنے کی اجازت دی کہ ہم جنگ میں شریک نہیں ہوں گے مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس کے باوجود آپ ؐ نے صحابیوں کو وعدہ پورا کرنے کی تاکید کی۔
جنگ احد میں ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے آپ ؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کی لاش کو مسخ کیا اور کلیجہ چبایا غم اور غصے کی کیفیت میں بھی آپ ؐ نے مسلمانوں کو کفار کی لاشوں کو مسخ کرنے کی اجازت نہ دی اور مثالی اخلاق کا مظاہرہ کیا۔
اللہ کے رسول ؐ فتح مکہ کے بعد بھی اخلاقیات کے اعلیٰ معیار پر کھڑے رہے اور اسلام کے دشمنوں کو معاف کرکے قرآن کے اصول عفو و در گزر پر عمل کیا۔ آپ ؐ نے اپنی گھریلو زندگی میںبھی بہترین اخلاقیات کا مظاہرہ کیا ۔ اپنے گھر میں اپنے ہاتھ سے کام میں کرتے ۔ کپڑوں کو پیوند لگاتے ، جھاڑو دیتے ، غلام کے ساتھ مل کر آٹا گوندھ لیتے۔ بازار سے سودا سلف لاتے، اپنی ازدواج کی معاونت کرتے ۔ کسی مسکین یا بیوہ کا کام کر دیتے ۔ ایک دن بوڑھی عورت کو سر پر بوجھ اٹھا کر جاتے دیکھا آپؐ نے اس کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا لیا اور اس کے گھر پر چھوڑ آئے۔اللہ کے رسولؐ دوسروں کے جذبات کا بہت احترام کرتے نماز کے دوران کسی بچے کے رونے کی آواز آتی تو نماز مختصر کر دیتے ۔رات کو دیر سے گھر تشریف لاتے تو جوتی اتار کر دبے پائوں گھر میں داخل ہوتے تاکہ خواتین کی نیند میں خلل نہ آئے۔ آپؐ دوسروں کے بارے میں بدگمانی سے پرہیز کرتے اور حسن ظن رکھتے ۔
ارشاد ربانی ہے ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو گمان کرنے سے پرہیز کرو بعض گمان گناہ ہوتے ہیں تجسس نہ کرو اور تم میں کوئی غیبت نہ کرے ‘‘ (12:49) کاش مسلمان قرآن کی بنیادی تعلیمات پر عمل کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔اللہ کے رسولؐ نے زندگی بھر مثالی برداشت کا مظاہرہ کیا ایک ایک بار ایک یہودی آپؐ کے پاس آیا اور آپ کی چادر کھینچ کر قرض کی واپسی کا تقاضا کیا حالانکہ ابھی قرض کی ادائیگی کی مہلت ختم نہ ہوئی تھی، حضرت عمرؓ اس گستاخی پر جذباتی ہوگئے اور آپؐ سے یہودی کا سر قلم کرنے کی اجازت چاہی آپؐ نے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت عمر سے فرمایا ’’ اے عمرؓ اس یہودی سے کہو کہ بہتر طریقے سے اپنا قرض طلب کرے اور مجھے حسن ادائیگی کیلئے کہو’’یہودی آپؐ کے اخلاق سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا ’’اے محمدؐ اس پاک ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق سے نواز کر مبعوث فرمایا میں اپنا قرض لینے نہیں بلکہ آپؐ کے اخلاق کا امتحان لینے آیا تھا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپؐ اللہ کے رسول ہیں اپنا قرض مسلمانوں کو صدقہ و خیرات کرتا ہوں(بیہقی ) ایک دفعہ آپؐ ایک لشکر کی قیادت کرتے ہوئے جا رہے تھے راستے میں آپؐ کو ایک کتیا اور اس کے بچے نظر آئے آپؐ نے صحابہ کرام کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس وقت تک ان کی حفاظت کریں جب تک لشکر گزر نہ جائے تاکہ کتیا کے بچے اونٹوں کے پائوں تلے آکر کچلے نہ جائیں ۔
آپؐ تمام جہانوںاور مخلوقات کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے ۔ آپؐ سے محبت اور آپ کی متابعت ہر انسان اور مسلمان پر فرض ہے عشق رسول کے بغیر مسلمان کا تو ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا اور نہ ہی عشق اطاعت رسولؐؐ کے بغیر مکمل ہوتا ہے ۔ ہم جنون کی حد تک عشق کرتے ہیں مگر اطاعت نہیں کرتے۔ یہی مسلمانوں کا بنیادی تضاد ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ جس دن مسلمان محبت کے ساتھ اطاعت کرنے لگے، ایک بار پھر زوال سے نکل کر عروج پر پہنچ جائیں گے ۔ علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا ۔…؎
تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024