سرور کائنات، شافع محشر، امام الانبیاء سید المرسلین محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰﷺ کی بعثت سے پہلے پوری انسانیت جہالت و گمراہی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی خصوصاً سرزمین عرب کی وہ حالت تھی کہ یہ خطہ ظالم اور جاہل قبیلوں کے ہاتھوں برباد ہو رہا تھا، بے شمار اخلاقی اور سماجی برائیاں اس معاشرے میں رائج تھیں۔ نومولو بیٹیوں کو پیدائش کے فوراً بعد زندہ درگور کر دیا جاتا۔ اخلاقی گراوٹ اور پستی کا یہ حال تھا کہ بیٹا سوتیلی ماں سے شادی کر لیتا تھا۔ حیات انسانی مجرموں، ظالموں اور استحصالی قوتوں کی محکوم اور غلام تھی۔ انسانی حیات کا وجود شرک و بت پرستی سے پارہ پارہ ہو چکا تھا۔ ہر گوشہ حیات میں ابتری اور فساد تھا۔ خوف اور حزن کے سائے روح انسانی ہی نہیں بلکہ روح کائنات کو بھی مضطرب اور پریشان کر رہے تھے۔
ان حالات میں جب امید کی کوئی کرن باقی نہیں رہی تو پھر خالق کائنات کو اس دکھی انسانیت پر ترس آیا جس کے نتیجے میں غار حرا سے نور کی ایسی شمع روشن ہوئی جو جلد ہی ایک منور آفتاب کی صورت گری میں ڈھل گئی۔ یہ شمع رسالت بنو ہاشم کے گھرانے میں روشن ہوئی۔ دنیائے کل کو وہ نجات دہندہ مل گیا جسے خاتم النبین، سید المرسلین اور رحمت اللعالمین ﷺ بن کر صرف بنی نوع انسان ہی کیلئے نہیں بلکہ تمام عالمین کیلئے رحمت بن کر انقلاب برپا کرنا تھا اور مثالی معاشرے کی تشکیل و تعمیر قرآن کریم فرقان حمید کے احکامات کی روشنی میں کرنا تھی جس سے تمام بنی نوع انسان ابد تک مستفید ہوتی رہے گی۔ میرے آقا، سید البشر، سرور کونین، صاحب لوح و قلم، بشیر و نذیر کی 12 ربیع الاول، دوشنبہ کی صبح سعادت آمد سے کائنات کو ایک نئی جہت، نیا موڑ اور امید و کامرانی کا وہ نسخہ کیمیا (قرآن پاک) مل گیا جس سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ و منزل مل گئی۔ توحید اور ایمان کی روشنی سے سارا جہان روشن ہو گیا۔ آپ نے پوری دنیا کے سامنے مکمل شریعت پیش کر کے دنیا کے گوشے گوشے کو نغمہ توحید سے معمور کر دیا۔ آپ نے گمراہوں کو سیدھا اور سچا راستہ بتایا، بندوں کا رشتہ خدا سے جوڑا اور اوہام پرستی کو مٹایا، دنیا کو محبت اور مساوات کی تعلیم دی۔
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جسکی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے‘‘۔ آج ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے کہ کیا ہم نبی پاکﷺ کے اس حکم پر عمل پیرا ہیں۔ آج مسلمان مسلمان کو رنگ، نسل اور عقیدے کی بنا پر کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر وہ حضورؐ پاک کے اس ارشاد کو اپنی زندگی کا مطمعِ نظر بنا لے۔ پیغمبر اسلام نہ صرف امن کے علمبردار تھے بلکہ آپ کی تعلیمات کا مقصد ملت اور معاشرے میں اتحاد، اخوت، باہمی اشتراک اور تعاون کا قیام تھا جس طرح نبی کریم رحمت اللعالمین حسن و جمال کا پیکر تھے، زیبائی اور رعنائی میں آپؐ کا کوئی مثل نہ تھا۔ اس طرح آپ کی سیرت اور اسوہ حسنہ احسن ترین صورت میں چودہ سو سال سے جلوہ افروز ہے اور اسکی ضیا پاشیاں ابد تک جاری و ساری رہیں گی۔ آپؐ کے اخلاق کریمہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک آپؐ کے اخلاق بلند مقام پر فائز ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضور اقدسﷺ کی مبارک زندگی قرآن مجید کا عکس ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے نبی کریمﷺ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو آپؓ نے فرمایا ’’کیا تم نے قرآن مجید نہیں پڑھا، آپ کا اخلاق قرآن ہی تو ہے‘‘۔ نبی رحمتﷺ نے فرمایا ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں‘‘ (بخاری و مسلم) ۔ محبوب خدا حضرت محمدﷺ کا اخلاق اس قدر حسین و عظیم تھا کہ اسکی تاثیر تمام جہانوں پر محیط ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔
محسن انسانیتﷺ کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ آپ خاتم النبین، رحمتہ للعالمین اور تمام جہانوں کیلئے ابر رحمت ہیں۔ آپ چونکہ قیامت تک کیلئے بنی نوع انسان کے نبی ہیں اس لئے آپ پر جو کتاب یعنی قرآن حکیم نازل کی گئی ہے و ہ بھی زندہ جاوید ہے اور یہ کتاب آپ کے سینکڑوں معجزات میں سب سے بڑا اور زندہ معجزہ ہے جو ہر زمان و مکان کے انسان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ اس کتاب کی زندہ تفسیر آپ کی سیرت طیبہ ہے جو زندگی کے ہر گوشہ حیات میں کمال زندگی کی آئینہ دار ہے جس کی نظیر تاابد پیش نہیں کی جا سکتی ہے۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے… ’’اللہ کے رسول کی سیرت میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے‘‘۔ عشق رسول کے جذبے سے سرشار یہ الفاظ ہمیشہ سے ہمیں نبی پاکﷺ سے عقیدت اور محبت کے رشتے میں باندھے رکھیں گے۔
بلغ العلیٰ بکمالہ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلوٰ علیہ و آلہ
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت سے قبل بھی صادق اور امین کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ لوگ اپنی امانتیں آپکے اس رکھواتے تھے اور اپنے تنازعات کے فیصلے آپ سے کرواتے تھے مگر اعلان نبوت کے بعد یہی لوگ آپکے سب سے بڑے دشمن بن گئے۔ آپکے راستے میں کانٹے بچھانے لگے آپ کو ہر طرح سے تنگ کیا جاتا۔ طائف میں آپ کو دعوت اسلام دینے کی پاداش میں پتھر مار مار کر لہولہان کردیا گیا‘ آپ پر گندگی پھینکی گئی‘ آپ کو مجنوں‘ دیوانہ اور جادوگر تک کہا گیا۔ شعب ابی طالب کی گھاٹی میں آپ اور اہل خانہ کو تین سال تک محصور رکھا گیا مگر آپ نے انہیں بددعا نہ دی بلکہ فتح مکہ پر سب کو معاف فرما کر ایک مثال قائم کردی کیونکہ رسول کریمؐ سراپا رحمت ہیں۔ رحمت بن کر تشریف لائے آپ کا کام اللہ کے بندوں پر رحم کرنا تھا۔
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے عرب میں لونڈیوں اور غلاموں کی حالت جانوروں سے بدتر تھی مگر اس معاشرے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی برکت سے وہ حیرت انگیز انقلاب آیا کہ ان لونڈیوں اور غلاموں کو انسان سمجھا جانے لگا پھر یروشلم کی فتح کے بعد چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ حضرت عمر اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے پیدل چلے آرہے ہیں اور ان کا غلام اونٹ پر سوار ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم غلاموں اور لونڈیوں کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ مرض الموت میں بھی سب سے آخری وصیت میں یہ ارشاد فرمایا: اے لوگو ’’ غلاموں کے معاملے میں اللہ سے ڈرا کرو‘‘ آپؐ نے قریبی تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آنے کی ہدایت فرمائی۔ ایسے لوگوں میں ماں باپ‘ بہن بھائی‘ بیوی بچے‘ دوست‘ احباب اور پڑوسی شامل ہیں۔ ان کے ساتھ عمدہ برتائو کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا حسن معاشرت کہلاتا ہے۔
حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے نتیجے میں ایک روحانی‘ سماجی‘ معاشی اور اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہوا اور ہادی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے عالمگیر معاشرے کی تشکیل و تعمیر کی جو ہر قسم کے ظلم و ستم اور استحصال سے پاک اور حریت و مساوات کی بنیادوں پر استوار تھا۔ حجۃ الوداع کے تاریخی خطبے میں آپ نے حقوق انسانی کا جو عظیم ترین منشور (چارٹر) پیش کیا وہ نہ صرف اسلامی بلکہ بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس میں بنیادی انسانی حقوق کا مکمل تحفظ اور احاطہ کیا گیا ہے۔ چودہ سو سال پہلے پیش کیا جانے والا یہ چارٹر ملکوں‘ نسلوں‘ قبیلوں‘ رنگوں اور زمانوں کی حدود پھاند کر پوری انسانیت کے تمام ادوار کو اپنی حدود میں سمیٹ لیتا ہے۔
سرکار دوعالم بیٹے کے روپ میں ہوں‘ شوہر یا باپ کے‘ شہری ہوں‘ دوست یا رشتے دار ہوں‘ ایک مبلغ‘ جرنیل‘ حکمران اور فاتح کی حیثیت سے ہوں‘ معلم ہوں‘ جج ہوں‘ لیڈر ہوں یا ایک رہبر کامل یا ایک عظیم مصلح انسانیت غرض یہ کہ آپ کی تمام حیثیتوں میں آپ کی ذات اقدس ہمہ جہت‘ جامع الصفات‘ عظیم ترین اور مثالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر موجودات‘ وجہ تخلیق کائنات حضرت محمدؐ کی سیرت و شخصیت ازل سے ابد تک زمان و مکاں پر احاطہ کئے ہوئے کائنات کا ذرہ ذرہ سرکار دوعالم امام الانبیاؐ کی مرحت و رفعت کا شاہد ہے ہر رتبہ بلند کل کائنات میں آپؐ کے سوا کسی اور کو نصیب ہوا اور نہ ہوگا۔ آپ کے بغیر نہ اذان مکمل ہوتی ہے اور نہ نماز‘ قرآن کریم نے یہ اعلان کیا ہے آپ اس کائنات کے سراج منیر ہیں۔
مولانا عبدالماجد دریاآبادی لکھتے ہیں ’’ہر سال نہیں‘ ہر ماہ نہیں‘ ہر روز پانچ مرتبہ بلند و بالا میناروں سے جس نام کی پکار خالق کے نام کے ساتھ فضائوں میں گونجتی ہے وہ اس عظیم اور مقدس ہستی کی ہے جسے بصیرت سے محروم دنیا نے ایک زمانے میں محض ایک بے کس و یتیم کی حیثیت سے جانا تھا۔ یہ معنی ہیں یتیم کے راج کے‘ یہ تفسیر ہے ورفعنالک ذکرک کی کسی ایک صوبے یا کسی ایک جزیرے پر نہیں دنیا پر‘ دنیا کے دلوں پر آج حکومت ہے تو اس یتیم کی، راج ہے اسی نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ محمدؐ کے کسی ایک پہلو کا اجمالی احاطہ کرنا آسان نہیں ہے بس یہ وہ مقام ہے جہاں ہر ذی شعور انسان عقیدت سے بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔
یا صاحب الجمال و یاسید البشر
من و جہک المنیر لقد نور القمر
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024