آنحضرت ؐنے جو تعلیم دی اس کا براہ راست تعلق انسانیت کے بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں سے ہے۔ قرآن و سنت انہی حقوق کے حفظ واور ترویج و اشاعت پر مبنی ہے۔ نبی اکرمؐ کا آخری خطبہ حجتہ الوداع عوام کے حقوق کا منشور ہے۔ پاکستان انہی مقاصد کے حصول کے لیے قائم ہوا ہے۔ ہم ابھی تک کوئی ایسا ادارہ قائم نہیں کر سکے جہاں مسلمانوں کو وہ حقوق اور آزادیاں حاصل ہوںجو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے عطا کی ہیں۔ ایک انسان کے ہزارہا حقوق ہوتے ہیں۔ آنحضرتؐ کے پیغام کا مرکزی کردار انسان ہے، اسی لیے بار بار انسان کو پکارا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق اتنی پیاری ہے کہ اس نے انسان کو پسندیدگی کا حق بھی دے دیا ہے کہ چاہو تم حق کا راستہ اختیار کرو، چاہے کفر کا۔ انسان تو انسان، جانوروں اور مردہ انسانوں کے بھی حقوق ہیں۔ مردہ کے یہ حقوق ہیں کہ تمہاری وصیت پر عمل کیا جائے۔ تمہیں مرنے کے بعد عزت کے ساتھ دفن کیا جائے۔ تمہیں بُرے نام سے نہیں پکارا جائے۔ تمہارے نسب اور حسب کی تکریم کی جائے، حتیٰ کہ قبر کا احترام کیا جائے۔ یہ پہلا مذہب ہے جس نے جانوروں اورمردہ انسانوں کا بھی تحفظ کیا ہے۔ تین قسم کے حقوق ہیں۔ سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی۔ جب انسان کے حقوق غضب کیے جاتے ہیں تو معاشرہ روبہ زوال ہو جاتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان پر عمل کریں تو پھر چھوٹے چھوٹے فروعی اختلافات ختم ہو جائیں گے جو مسلمانوں میں ہیں۔ پھر ہم ایک قوت بن کر ابھریں گے۔ آنحضرتؐ نے سب سے پہلے انسانی حقوق کا شعور دیا اور اسے اپنی زندگی میں نافذ کر کے دکھایا۔ یہ باتیں اس سے پہلے نہیں ملتیں۔ پہلے یا تو کسی نے شعور دیا یا پھر طاقت کے زور پر اپنے کسی حکم کو نافذ کیا۔ مسجد نبویؐ کی تعمیر سے پہلے آپؐ نے امت کو آئین دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ عوام کے حقوق کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔ یہ تاریخ میں پہلا تحریری آئین ہے جو کسی حکمران نے رعایا کے مطالبوں کے بغیر ان کو عطا کیا۔ آج لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آنحضرتؐ وہ پہلے حاکم ہیں جنہوں نے انسانیت کو آئین دیا کہ اختیار حکمرانی عوام کیسے استعمال کریں۔ یہ پوری امت کو ملا ہے کہ امت اپنے نمائندے آزادانہ منتخب کرے۔اسلام نے کمزور اور غریب کو برابر نہیں بلکہ ارفع و اعلیٰ مقام دیا ہے۔ حدیث ہے کہ ایک غریب بچے نے ایک امیر بچے کا کان کاٹ لیا تو جب حضورؐ کے پاس مقدمہ پیش ہوا تو بچہ کا والد کیونکہ غریب تھا اس لیے اسے دیت سے مبرا کر دیا گیا۔ اس کے بعد مسئلہ تھا کہ بچے کو سزا دی جاتی مگر بچے کو سزا اس لیے نہ دی گئی کہ وہ نابالغ تھا۔ غریب بچے کو سزا ملی نہ دیت دینی پڑی۔ کوڑوں کی سزا کے متعلق بھی یہ حکم ہے کہ جب کسی جرم پر کوڑے مارے جائیں تو غریب کو ذرا آہستہ مارے جائیں۔ جہاں تک حضور نبی کریمؐ کی صفات و اخلاق کا تعلق ہے تو حضرت عائشہؓ کا فرمان ہے کہ آنحضرتؐ نے کبھی کسی سے اپنی ذات کے بارے میں بدلہ نہیں لیا۔ ہاں کوئی دین کی ہتک کرتا تو اس کی سزا دیتے۔ جنگ اُحد میں جب زخم لگا اور روئے مبارک سے خون بہنے لگا تو لوگوں نے کہا کہ ان کافروں پر نوح علیہ السلام کی طرح بددعا فرمائیے۔ جو اب دیا کہ میں لعنت کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد دعا کی کہ اے اللہ! میری قوم جانتی نہیں ہے، اس کو ہدایت دے۔ منافقوں سے رات دن آزار اور تلخی سہتے تھے لیکن کبھی انتقام کے درپے نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ سلوک اور مہربانی سے پیش آئے۔ قریش نے کیا کچھ اذیتیں نہیں پہنچائی تھیں، سب آپؐ نے برداشت کیں اور ان پر قابو پایا تو یک قلم ان کو معافی عطا کردی۔ آپؐ کو غصہ بہت دیر سے آتا تھا اور راضی جلد ہو جاتے تھے۔ آپؐ کبھی کسی سائل کو محروم نہیں فرماتے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب کسی کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات آپؐ تک پہنچتی تھی تو نام لے کر کچھ نہیں کہتے تھے بلکہ یوں فرماتے تھے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ اس قسم کی باتیں کرتے یا کہتے ہیں۔ کبھی کسی کی طرف تیز نگاہ سے نہیں دیکھا۔ آنکھیں ہمیشہ نیچی رکھتے تھے۔ جب ہنسی آتی تھی، مسکراہٹ سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ آپؐ کا برتاؤ اس محبت کے ساتھ تھا کہ سب لوگ آپؐ کو اپنے شفیق باپ سے بڑھ کر سمجھتے تھے۔ جو شخص آپؐ کے پاس آتا اس کی تعظیم کرتے اور جب تک وہ شخص اٹھنے کی خواہش نہ کرتا، خود نہ گھبراتے۔ اکثر اپنا کمبل اور گدّا اس کے لیے بچھا دیتے۔ آپ کی محفل میں عیب جوئی یا بے جا مدح یا بدگوئی مطلق نہیں ہو سکتی تھی۔ ہر شخص کی عزت کا خیال رکھتے تھے۔ آپؐ کی ذات نہ صرف اپنے اصحاب اور اُمت بلکہ دنیا والوں کے لیے رحمت تھی۔ بدخواہوں اور دشمنوں کے ساتھ بھی آپؐ مہربانی سے پیش آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رؤف اور رحیم کا خطاب دیا ہے اور رحمت اللعالمین فرمایا ہے۔ ہمیشہ اپنے اصحاب کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ کوئی کسی کی شکایت مجھ تک نہ لائے تا کہ میں اطمینان قلب کے ساتھ سب سے ملوں اور کسی کی طرف سے کوئی خدشہ اور کدورت میرے دل میں نہ ہو۔ کیسی ہی خطا ہو کوئی کسی قسم کی معذرت کرتا تو اس کو قبول فرما لیتے۔ تواضع کی یہ کیفیت تھی کہ فقرا اور مساکین کے ساتھ بیٹھتے، ان کی بیمار پرسی کے لیے جاتے۔ صحابہ میں ایسے مل جل کر بیٹھتے کہ اجنبی شخص امتیاز نہیں کر سکتا تھا کہ ان میں کون رسولؐ ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024