ہر مذہب احترام انسانیت کا درس دیتا ہے ۔ہر مذہب میں ماں باپ کا ادب کرنے کو کہا گیا ہے ۔ہر مذہب میں غلط کاموں سے منع کیا جاتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک ہر دور میں ہر ملک ، علاقے کے لوگوں کی راہنمائی کیلئے اپنے نبی اور رسول بھیجتا رہا ہے ۔پہلی اُمتوں پر جو کتابیں اور صحیفے نازل ہوا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے ان کتابوں اور صحیفوں میں وقت کے ساتھ کچھ تبدیلیاں کرلیں۔مگر بہت سی بنیادی چیزیں نہ بدل سکے۔ہر مذہب آج بھی کسی نہ کسی صورت اللہ تعالیٰ کی ہی رضا حاصل کرنے کا درس دیتا ہے ۔لیکن اسلام میں اللہ پاک نے حضرت محمد مصطفے ؐکی شکل میں ایک عملی نمونہ سب کے سامنے رکھ دیا ہے ۔جو کتاب اپنے آخری نبیؐ کو دی اسکی حفاظت کی ذمہ داری خود لیتے ہوئے فرما دیا کہ یہ آخری کتاب ہے جو لوگوں کی ہدایت کیلئے ہے ۔اس میں غور کرنے کا کہا گیا ۔اس کتاب میں جہاں پہلی امتوں کے عروج وزوال کی حقیقتیں بیان ہوئی ہیں ۔وہیں ساتھ ہی قیامت تک زندگی گزارنے کیلئے راہنمائی کر دی گئی ہے۔اللہ پاک نے حضرت محمد ؐ کو اس دنیا میں بھیج کر انہیں نہ صرف اپنا محبوب قرار دیا ,بلکہ ساتھ ہی ماننے والوں کو صاف بتلادیا گیا کہ اس وقت تک تمہارا ایمان مکمل ہو ہی نہیں سکتا ہے۔جب تک حضرت محمدؐ سب لوگوں کو انکے ماں باپ اور اولاد سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جائیں۔اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے کہ ؛ بے شک اللہ پاک اور اسکے فرشتے نبی ؐ پر درود و سلام پڑھتے ہیں ۔اے ایمان والوں تم بھی آپؐ پر درود و سلام بھیجاکرو۔آج ہم جشن میلادﷺ منا رہے ہیں۔ہم میںسے بہت سوں نے اپنے گھروں ؛گلیوں اور بازاروں کو سجایا ہوا ہے ۔مگر ہمارے دلوں میں عشق نبی ﷺکی جھلک کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔آقاؐ نے تو ہمیں سادگی کا درس دیا تھا ۔آج ہمارے نعت خوا ن جو لباس پہن رہے ہیںجس طرح سے تیار ہو کر آتے ہیں۔جس طریقے سے کلام پیش کیا جارہا ہے ۔کیا یہی اسلام کا طریقہ ہے؟ نعت ِ رسول ﷺ پڑھنا بے شک ہر مسلمان کیلئے باعث کامیابی ہے ۔ اللہ پاک جب محبانِ رسول پر مہربان ہوتا ہے تو انہیں نعت کی توفیق عطا کرتا ہے ۔جب شاعر نعت کو توفیقِ خدا وندی سمجھ کر ,عشق و عقیدت سے قلم چلاتا ہے تو پھر اسکے بے جان لفظ ہی صرف حیات دوام سے ہمکنار نہیں ہوتے بلکہ شاعر کو بھی نیک نامی اور سربلندی کی خلعت عطا کرتے ہیں۔مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ ایک مخصوص طبقے کی وجہ سے آج بہت سے لوگو ںکو محافل نعت پر تنقید کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔ہم بچپن سے ایک شعرسنتے آرہے ہیں؛یہ ہوا یہ فضا کہہ رہی ہے آقاؐ تشریف لائے ہوئے ہیں:: جب ہم یہ کہتے ہیںتو کیا ہمیں محفل نعت میں بیٹھتے وقت اپنی حالت پر غور نہیں کرنا چاہیے۔۔محفل نعت کا تقاضا ہے کہ ہماری آنکھو ں سے ندامت کے آنسو جاری ہوں۔ہم روتے ہوئے اللہ پاک سے اسکے محبوب نبیﷺ کے وسیلے سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ امت کیلئے دعا مانگیں۔آئیں ہم آج کوشش کریں کہ جس طرح گلی محلے کو سجایا ہے اسی طرح زندگی بھر اپنی زندگیوں کو سجا لیں اپنے گلی محلے میں بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھی بنیں گے۔فرقہ پرستی ,گروہ بندی کو چھوڑ کے ایک امت بننے کی کوشش کریں۔حضورؐ کی زندگی ایک چھوٹے بچے سے لیکر ,ایک تاجر,مبلغ,استاد,راہنما,سپہ سالار,بادشاہ اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہوئی ہمارے سامنے ہے۔آپ ﷺکے دشمن بھی آپ کی سچائی ,امانت اور صداقت کی گواہی دیتے تھے۔دنیا کی تاریخ میں ایمان داری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے ۔کہ جو لوگ آپکی جان کے دشمن تھے۔جنہوں نے آپؐ کا جینا مشکل کیا ہوا تھا۔جو دین اسلام کو مٹانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے تھے۔وہ دشمن بھی اپنی امانتیں سرکار ﷺکے پاس رکھوایا کرتے تھے۔جب کفار مکہ نے مکہ میں جینا مشکل کردیا ۔ اللہ کے حکم سے مدینہ جانے کا فیصلہ ہوا ,اس وقت بھی آپ ؐنے حضرت علیؓکی ڈیوٹی لگائی کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں واپس کرکے مدینہ آنا۔
ہائے افسوس آج ساری دنیا میں مسلمان بہت بڑی تعداد میں ہو کر بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہی ہے کہ آج کے مسلمان حضورؐ کے نام پر مرمٹنے کو تیار ہیں ۔مگر ہم آپؐ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل پیرا ہو کے کامیاب زندگی نہیں گزارناچاہ رہے۔ہم جتنی محبت کا دعوی کرتے ہیں۔ہمارے اعمال اسکے بالکل الٹ کیوں دکھائی دیتے ہیں۔ملت کے اتحاد کا جو درس اللہ اور اس کے محبوب رسول ﷺنے دیا تھا ۔آج یہ امت اس درس کو بالکل ہی بھول چکی ہے ۔آج مسلم امت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی نظر آرہی ہے ۔آج ہم کہیں لسانیت میں ,کہیں صوبائیت میں ,کہیں قوم پرستی میں تو کہیں علاقائیت میں بٹے ہوئے ہیں۔ہمیں ایک امت بننے کا اب کوئی خیال ہی نہیں ہے ۔فرقہ پرستی کی لعنت ہمارے اندر کو کھوکھلا کررہی ہے ۔دشمن جب چاہتا ہے ہماری اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کے ہمیں آپس میں ہی دست و گریبان کر دیتا ہے ۔ہمیں آج یہ بات سمجھ لینی ہوگی کہ دنیا ہماری دشمن نہیں ہے ۔کچھ وقت کیلئے بھول جائیں کہ ہم نے دشمن کو سبق سکھانا ہے ۔پہلے ذرا کچھ دیر کے لیے اپنی صفوں کو ترتیب دے لیں۔اپنی حالت پہ نظر کر لیں۔ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ ہمارے کریم آقاؐ نے کیا حکمت عملی اختیار کی کہ مدینہ شریف میں قیام کے ایک سال بعد ہی مدینہ کے حکمراں بن گئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024