کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے مردم شماری شرطِ اول ہے۔ کوئی منصوبہ‘ پلان معنی خیز اور مؤثر نہیں ہوسکتا جب تک یہ پتہ نہ ہو کہ لوگوں کی تعداد کتنی ہے۔ مرد و زن کا تناسب کیا ہے۔ آبادی کس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ شرح خواندگی کیا ہے۔ روزگار اور بے روزگاری میں کتنی خلیج حائل ہے۔ مال مویشی‘ مکانات‘ ایج گروپ‘ الغرض کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں ہے جس کا احاطہ اور جائزہ یہ نہیں لیتی۔ یہی وجہ ہے کہ آئین نے ایک قدغن لگا دی ہے۔ ہر دس سال بعد اس کا اہتمام اور انعقاد کیا جائے۔
ہماری حکومتیں بوجوہ اس قانونی ضرورت سے اغماض برتتی رہیں۔ انکی ترجیحات میں یہ کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی۔ جہاں نفسا نفسی کا عالم ہو‘ حکمرانوں کو اپنے حلوے مانڈوں سے فرصت نہ ملتی ہو‘ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو‘ وہاں اس قسم کے ’’بیکار‘‘ اور متنازعہ امور پر کون توجہ دیگا؟ تاخیر تو پہلے ہی ہوچکی تھی‘ اگر سپریم کورٹ حکم نہ دیتی تو یہ حسبِ دستور خواب خرگوش کے مزے لوٹتے، لطف کی بات یہ ہے کہ مردم شماری ابھی شروع بھی نہ ہوپائی تھی کہ اس پر تنقید شروع ہوگئی مفروضے قائم کرلئے گئے کہ دھاندلی ہوگی‘بے ایمانی ہوگی۔ ایک صوبے (پنجاب) کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ چھوٹے صوبوں کا حق تلف کیا جائیگا اس آرکسٹرا میں چند سندھی سیاست دان پیش پیش تھے۔ وجہ…؟ جو لوگ کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیتے۔ تھر کے کوئلے کی کالک اپنے منہ پر مل لیتے ہیںوہ کیسے چاہیں گے کہ اُن کا بھرم کھل جائے۔ مشرق سے کھلنے والے سیم و زر کے دروازے بند ہوجائیں۔ یہ عجیب ملک ہے ہم ’’زندہ قوم ہیں‘‘۔ ملک تو بدقسمتی سے وہیں کھڑا ہے جہاں سے آغاز ہوا تھا اہل وطن نے خوب ترقی کی ہے۔ ذرے آفتاب ہوگئے ہیں۔ پرکاہ تن ا ور درخت بن گئے ہیں۔ ریڑھیوں پر چنا جو ار گرم کی صدائیں لگانے والوں کی ’’جورا جوری‘‘ دیکھنے کے قابل ہے۔ ہندوستان ویسے ہی ڈینگیں مارتا ہے‘ اتراتا پھرتا ہے۔ ہمارا مقابلہ تو کردیکھے کیا وہاں کوئی ایسا آہن گر ہے جو سٹیل ملز کا مالک بن گیا ہو؟ میٹر ریڈر جو پورا واپڈا ہائوس خریدنے کی سکت رکھتا ہو۔ سینما کا ٹکٹ فروش جو فلمی ستاروں میں گھرا رہتا ہو۔ جس نے برج خلیفہ کے لگژری فلیٹ اُن کیلئے مختص کررکھے ہوں۔ راجہ اندر، راسپوٹین‘ واجد علی شاہ‘ محمد شاہ رنگیلا کی روحیں جب اس ملک کا طواف کرتی ہونگی تو اپنی کم مائیگی پر ضرور کفِ افسوس ملتی ہونگی۔ بات مردم شماری سے شروع ہوئی تھی جو بے خیالی میں مردم آزادی کی طرف بڑھ چلی ہے لہٰذا ہم اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔
زیادہ اعتراض ایم کیو ایم کے ’’حاضر سروس‘‘ رہنما ڈاکٹر ستار کو ہے ۔ یہ بزعمِ خود بانی الطاف حسین سے ترک تعلق کر بیٹھے ہیں۔ انکے مخالفین نے شک و شبے کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب یہ الطاف بھائی کا نام لیتے ہیں تو انکی آنکھوں کی چمک‘ چہرے کے تاثرات اور اعضا کی حرکات و سکنات دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ نورا کشتی ‘ مصلحتِ شب‘ تکیہ کوئی بھی نام دے دیں‘ انہیں ایک نہ ایک دن اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہے۔ جو لوگ برس ہا برس نمک کی کان میں رہے ہوں‘ اس بہیمانہ اور ظالمانہ حکمت عملی کا جزولاینفک ہوں وہ بھلا راتوں رات کیسے معصومیت کا لبادہ اوڑھ سکتے ہیں۔ چلئے بحث کی خاطر مان لیتے ہیں کہ مائیت ِ قلب ہوگئی ہے۔ صبح کے بھولے شام کو گھر لوٹ آئے ہیں، برگِ حشیش شاخِ نبات میں ڈھل گیا ہے اور ایم کیو ایم کا یہ دھڑا محبِ وطن تھا‘ صرف بدباطن لوگ انہیں مطعون کرتے تھے اور الزام تراشیوں کے تیر برساتے تھے۔ البتہ فاروق ستار اور دیگران سے چند سوالات پوچھے جاسکتے ہیں۔
1۔ کیا اس مردم شماری سے سندھ یا کراچی کی قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی سیٹیں کم ہوگئی ہیں؟ سیٹیں صرف پنجاب کی کم ہوئی ہیں۔ ذرا سوچیں اگرسندھ یا KP کی 9 سیٹیں کم ہوجاتیں تو کیا ہوتا۔ ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ۔ اسے پنجاب کی سازش قرار دیا جاتا۔ ایسا نہیں ہوا۔
2۔ کیا جس تناسب سے پنجاب کی آبادی گزشتہ 70 برس میں بڑھی ہے اس مردم شماری میں اس کو پَر لگ گئے ہیں؟
3۔ مردم شماری پاک فوج کی نگرانی میں ہوئی ہے جو ہر لحاظ سے ایک غیر جانبدار ادارہ ہے۔ سندھ میں سندھی عملہ‘ پختون خواہ میں وہاں کا عملہ فوج کے ساتھ ملکر کام کرتا رہا ہے۔ کسی ادارے کو آبادی کم و بیش کرنے میں کیا فائدہ ہوسکتا تھا؟ کیا اس سے ڈیفنس بجٹ بڑھ یا گھٹ سکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میاں نوازشریف اُس وقت وزیراعظم تھا۔ وہ تو آئے دن اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بیان دے رہے ہیں۔ چار سو انہیں سازش کی بُو آرہی ہے۔ ان حالات میں ’’گٹھ جوڑ‘‘ کیسے ہوسکتا ہے؟ باقی رہا کراچی کی آبادی کم ہونے کا سوال۔ اسکی دو وجوہ ہیں۔ لاہور کے مضافات کو اربن بنا کر شہر میں شامل کردیا گیا ہے۔ کراچی کی بستیوں کو جو پچھلے سینس میں شہر کا حصہ تھیں‘ الگ کردیا گیا ہے۔یہ کام صوبائی حکومت کی مرضی اور منشا کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پچھلی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو، یہ وہ وقت تھا جب سارے شہر میں ان کا طوطی بولتا تھا ۔ الطاف حسین کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا۔ متحدہ ہندوستان میں انگریز IGپولیس مانک بھٹال کو King of Bar without Crown کہتا تھا۔ الطاف بھائی کی بھی کراچی میں وہی پوزیشن تھی۔ پولیس اور دیگر لوگوں کے تبادلے انکی مرضی اور حکم پر ہوتے تھے۔ جب تقریر کرنا ہوتی تو ٹی وی کے چلتے پروگرام رکوا دیتے۔ کسی اخبار‘ شخص یا ادارے کی ہمت نہ ہوتی کہ انکی شان میں تھوڑی سی بھی گستاخی کرے۔ وزیرداخلہ رحمان ملک کسی شٹل کاک کی طرح اسلام آباد اور لندن کے درمیان گھومتا پھرتا۔ مشرف بازو کی مچھلیاں پھڑپھڑانے سے پہلے ان سے مشاورت کرتا۔ 12 مئی کے خوں آشام واقعات کے بعد اس کا جملہ ’’دیکھا میرا طاقت‘‘ بڑا مشہور ہوا۔ سب کو علم تھا کہ اس طاقت کا سرچشمہ کون ہے؟ فاروق ستار اور دیگران کو علم ہے کہ دوبارہ مردم شماری نہیں ہوسکتی۔ اگر پاک فوج پر اعتبار نہیں تو پھر ملک میں وہ کونسا ادارہ ہے جس میں ہمت اور حوصلہ ہو اس قسم کی مردم شماری پر‘ پھر کسی نے اعتراض کردیا تو پھر کیا ہوگا؟ ایک نہ ختم ہونیوالا سلسلہ ! ایک لاینحل مسئلہ۔ ایک بیکار بحث۔ ملک کو انارکی کی طرف دھکیل دیا جائیگا۔ غالباً مقصد بھی یہی ہے۔ "Method in Madness" پارٹی کے حصے بخرے ہوچکے ہیں۔ دھاندلی کے امکانات مفقود ہیں۔ جیتنے کے چانسز بہت کم ہیں لہٰذا بھرم رکھنے کی خاطر کمپنی کی مشہوری کیلئے ’’لُچ تلنا‘‘ بسا اوقات مجبوری بن جاتی ہے۔
البتہ ایک چیز ممکن ہے "Random Testing" کراچی کے چند حلقوں کو فاروق ستار اور مصطفی کمال کے ایما پر منتخب کرکے وہاں انکی موجودگی میں ’’ڈور ٹو ڈور‘‘ چیکنگ کی جائے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیگا۔ انکی تسلی اور تشفی ہوجائیگی اور اگر کوئی بھول چوک ہوئی ہے تو اس کا بھی پتہ چل جائیگا۔
اس ہماہمی اور شوروشین میں اصل مسئلے سے نگاہ ہٹ گئی ہے۔ اور وہ ہے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ! ذرا اس کی گھمبیرتا کو سمجھنے کی کوشش کریں آبادی وسائل کو کھا جاتی ہے اور ان گنت مسائل کو جنم دیتی ہے۔ چین اور ہندوستان بھی ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے۔ ستر سالوں میں چین کی آبادی بڑھی نہیں کچھ کم ہوئی ہے۔ ہندوستان بھی نسبتاً ہم سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ انہیں تیزی سے بڑھتے ہوئے وسائل کا بھی فائدہ ہے۔ کوریا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ ہماری ترقی دیکھ کر انگشت بدنداں ہوتے تھے۔ آج انکے ذخائر 500 ارب ڈالر ہیں اور ہم 10/15سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ یہ ترقی ایوب خان کے دور میں ہوئی تھی۔ جب اُس کی توجہ زلزلوں کی طرف دلائی گئی تو اس نے ایک تاریخی جملہ بولا "I am more Afraid of Birth Quakes That Earth Quakes" بے ہنگم، بے تدبیر بڑھتی ہوئی آبادی بھی ایک معاشی دھماکے سے کم نہیں ہوتی، ہماری حکومتوں نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ نیم دِلانہ کوششیں! اب بھی وہی دونوںمنطق معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کیڑے کو پتھر میں بھی روزی دیتا ہے۔ حکم ربی تو یہ بھی ہے کہ خدا اس وقت تک قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک لوگوں کو اس کا خیال نہ ہو۔ گویا جدوجہد دانش‘ حکمت عملی کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ جو ملک میں لاکھوں کی تعداد میں نوزائیدہ بچے‘ طبی سہولتوں‘ خوراک کی کمی سے مرتے ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم خود ہیں!
ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہوگئی ہے لیکن ہم ابھی تک ایک قوم نہیں بن پائے، ہجوم ہیں۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا کہ ہمارا بادہ ہنوز نیم رس ہے۔ غالب کا بھی ہمنوا ہونا پڑتا ہے ’پہچانتا نہیں ہوں ابھی رہبر کو میں!‘ بھیڑوں کی کھال پہنے ہوئے بھیڑئیے‘ راہبروں کی شکل میں راہزن بہروپییٔ۔ بار بار ہم فریب وعدہ فروا پہ اعتبار کرتے ہیں۔ ہر دفعہ انہی لوگوں کو منتخب کرتے ہیں۔ کہتے ہیں مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ ہمیں جُل دے جاتے ہیں۔ دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا۔ شاید اس قوم میں صوفیانہ صفات مفقود ہوگئی ہیں۔ ہے کوئی جو اسم محمد سے اس مٹی کو زرخیز کرے!