اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے!

وہ کہتے ہیں نہ کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ تو دیکھ لیجئے کہ بہار کے ایکشن نے مودی سرکار کو ہلا کر رکھدیا اور یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ غلطی کہاں ہوئی۔
بے شک مظلوم کا لہو رائیگاں نہیں جاتا جن لوگوں نے بھاری اکثریت کے ساتھ مودی کو ملک کا وزیر اعظم بنایا انہی لوگوں نے بتا دیا کہ نفرت اور مذہبی انتہا پسندی کی سیاست کو وہ رد کرتے ہیں۔انڈیا، ایک ترقی یافتہ ملک، جو خود کو کسی بھی لحاظ سے باقی ممالک سے کمتر یا پیچھے نہیں سمجھتا۔ جب لبرزم کی بات ہوتی ہے تو ان کا یہ کہنا ہے کہ بھارت ایسا دیس ہے جہاں تقریباً 18 فیصد ملین مسلمان، 2 فیصد سکھ، 2.3 عیسائی اور متعدد ذات، نسل اور برادری کے لوگ رہتے ہیں۔ یہ لوگ خود کو بہت سی باتوں میں پاکستانیوں پر فوقیت بھی دیتے ہیں جیسے ملکی سیاست اور معاشی ترقی وغیرہ وغیرہ۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان اور بھارت میں خیر سگالی کا سلسلہ چلا جس میں آرٹ اور کلچر سے منسلک لوگوں نے آنا جانا شروع کیا۔ ان میں شعراء ادباء اور مصنف حضرات شامل تھے۔ باوجود اس حقیقت کہ دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان مسئلہ کشمیر ایک چٹان کی مانند حائل ہے جسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بھرپور کوشش کی گئی، ایک مثبت سوچ بنی کہ شاید ثقافت کے ذریعے یہ دوریاں ختم ہو جائیں اور شاید یہ دونوں ملک کل ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر مسئلہ کشمیر پر بات کر سکیں۔
لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور ایک بار پھر بھارت نے پینترا بدلا… ایک انتہا پسند ہندو جس کا یہ کہنا تھا کہ ’’ہم وعدے نہیں ارادے لیکر آئے ہیں‘‘۔ جلد ہی اس نے اپنی یہ بات ثابت بھی کر دی۔ بے شک آج جو کچھ ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس میں مودی سرکار کے ارادے کافی حد تک نظر آتے ہیں۔ مودی سرکار کے آنے کے بہت چرچے تھے اور وہاں کے لوگ خاصے مطمئن نظر آتے تھے۔ کیونکہ کسی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ کہ ایک آدمی جو چائے کے معمولی سے ٹھیلے پر باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا بھاری اکثریت کے ساتھ الیکشن جیت کر ملک کا وزیر اعظم بن جائیگا۔ پرلوگ بھول گئے کو مودی ہی کی سرکاری میں گجرات کے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا۔ ان کیلئے آواز اٹھانا تو دور کبھی اظہار ہمدردی بھی نہیں کیا گیا نہ ہی کبھی شرمندگی کا اظہار کیا گیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
شیوسینا جیسے حامی رکھنے والی مودی سرکار سے آج ہم کیا امید رکھ سکتے ہیں، انہیں کی راجدھانی میں اخلاق کو صرف گائے کا گوشت کھانے پر بے دردی سے مارا گیا، جہاں فن کاروں کو جانے سے روکا جا رہا ہے ان کے فن کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ استاد غلام علی جیسے فن کار جو دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنے فن کا جادو جگا چکے ہیں ان کو نہ صرف ممبئی بلکہ دہلی میں بھی گانے سے روک دیا گیا جہاں سدھیندرا کلکرنی جیسے بہادر انسان کو سیاہ پینٹ کے بھیانک حملے کا شکار بنایا گیا۔ آر ٹی آئی (RTI) کے کارکن ملک ارجن کٹی کو بھی تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ ستم ظریفی کی انتہا دیکھیں کہ کرکٹرز پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے۔ آپ حال ہی میں نجم سیٹھی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کے دورہ بھارت سے اندازہ لگا لیں۔ جبکہ وہاں سے بے شمار لوگ جن میں ادیب، شاعر اور فنکار حضرات شامل ہیں جب پاکستان آتے ہیں تو ان کا یہاں خیر مقدم کیا جاتا ہے اور اس بات کا اقرار وہ اپنے ملک جا کر بھی کرتے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ میرا بھارت مہان ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہمان بھگوان سمان ہوتا ہے کیا وہاں کے رہنے والوں کو یہ معلوم ہے کہ ایک مسلمان کو کسی بھی ہوٹل میں کمرہ لینے کیلئے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر کمرہ نہ ملنے پر وہ فٹ پاتھ پر ہی رات گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے پر مارا جاتا ہے اور شیوسینا کے خوف سے اسکے گھر والوں کو کوئی تسلی کے دو لفظ بھی کہنے نہیں جاتا۔ ایسی مذہبی انتہا پسند پہلے کبھی نہیںدیکھی۔ آخر مودی سرکار کب تک شیوسینا جیسے غنڈوں کو مسلمانوں پر حاوی رکھے گی۔ یہ انتہا پسندوں کی ایک ٹولی ہے۔ بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور وہاں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ہماری طرح ہی ان دونوں ممالک میں امن چاہتے ہیں۔ تبھی میں ان برے حالات میں بھی امید کی ایک کرن نظر آئی جی بہار میں مودی کی طاقت پلٹ گئی، جب لوگوںنے ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مودی سرکار کو مسترد کر دیا لیکن اس سے بھی بڑھ کر تب ہوا جب مودی کے دورہ برطانیہ پر برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین نے یہ ڈیمانڈ کی کہ مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لایا جائے۔ یہ ایک نہایت خوش آئند بات ہے۔ میں خراج تحسین پیش کرتی ہوں ان فنکاروں، شعراء اور مصنفین کو جنہوں نے اپنے ایوارڈ یہ کہتے ہوئے واپس کئے کہ وہ بھارت نہیں جس میں ہم رہتے ۔
جو لوگ مودی حکومت بنانے پر پرمسرت نظر آتے تھے آج وہ خاموش ہیں۔ آج دوستی کا پیغام نہ ادھر سے آتا ہے نہ ادھر سے جاتا ہے۔ آئے روز بارڈر پر فائرنگ کے واقعات میں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھوتے نظر آتے ہیں امن کی آشا اور خیر سگالی کے پیغامات اس ہندو انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ آنے جانے کیلئے ویزہ ملنے پر اور بھی سختی ہو گئی ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ان دونوں ملکوں کو الگ رکھنے میں بیرونی طاقتیں شامل ہیں لیکن پھر بھی آج ان دونوں ممالک کیلئے ایک اچھے ہمسائے کے طور پر رہنا بھی ممکن نہیں۔ کہیں بھی دیکھ لیں ہم اپنے ہمسائے سے اختلاف تو کر سکتے ہیں لیکن جہاں ساتھ رہنا ہو وہاں نفرت ممکن نہیں۔آج امن کی آشا، نراشا میں بدل گئی ہے کشمیر کا مسئلہ یہاں دونوں حکومتوں کی انا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ کیا کبھی کسی نے کشمیریوں سے پوچھا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں کیوں انکی ذات، ا کی شخصیت اور حیثیت کو قبول نہیں کیا جا رہا؟ کیوں انکے رہنے کا حق ان سے چھیناجا رہا ہے؟ کیا وہ انسان نہیں جو روز اپنے کاندھوں پر اپنوں کی لاشوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ خدارا کبھی ان سے بھی پوچھیں۔
جب پاکستان اور بھارت سچ میں اپنے مفادات سے نکل کر کشمیر کیلئے سوچیں گے تو یہ مسئلہ حل ہو جائیگا۔ خدا کرے کہ اس دن کا سورج ہم سب دیکھیں جب کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت ملے، انہیں ان کی پہچان ملے اور بارڈر پر فائرنگ کا سلسلہ بند ہو جائے۔ خدا مجھے وہ صبح دکھائے جب میں ان دونوں ممالک کے بارڈر پر امن دیکھوں اور یہ دونوں ملک اچھے ہمسائے کے طور پر رہ سکیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...