اگر مرض کی صحیح تشخیص ہو جائے اور علاج بھی معلوم ہو تو فوراً علاج کر لینا چاہئے، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے ارباب سیاست و حاکمیت کو اپنی حالت زار کا احساس ہی نہیں ہے، ہم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے ہیں کسی بھی وقت اس گڑھے میں گر سکتے ہیں لیکن ہمیں پرواہ نہیں، جب بھی تباہی و بربادی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو حکمران کہتے ہیں اس میں خفیہ ہاتھ کار فرما ہے، انہیں علم ہی نہیں کہ اس میں شیطان کا کھلم کھلا ہاتھ ہے اور ہم خود اس کے آلہ کار ہیں‘ یہاں ظلم و ناانصافی کرنے والے معتبر ہیں، عوام کو اس قابل ہی نہیں سمجھا جاتا کہ وہ کسی کی کارکردگی کا خود جائزہ لیکر کوئی فیصلہ کر لیں، بلکہ ہر صاحب اختیار اور سیاست کار اور سیاسی و مذہبی جماعت اپنے آپ کو عقل کُل اور معتبر ثابت کرنے میں مصروف ہے۔
ہمارے لیڈروں کی ترجیحات اور عوامی مفادات و ضروریات مختلف ہیں، ہماری قومی سوچ اور نہ ملکی مفاد ہماری ترجیحات ہیں ،اپنے ذاتی مفاد کیلئے ہم اخلاقیات کے اعتبار سے اتنے گر جاتے ہیں ،کہ عوام سوچتے رہ جاتے ہیں کہ اس شخص کا ضمیر کہاں گیا‘ میاں منظور وٹو جب بھٹو شہید اور بی بی بے نظیر کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں تو وہ آصف زرداری کی خوشامد کرکے اپنے لئے مزید آسانیاں حاصل کرنے کے جتن کرتے دکھائی دیتے ہیں ،اور جیالوں کی قربانیوں کا ذکر کرکے ان کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنا رہے ہوتے ہیں ،بہر حال اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ صاحبان اقتدار کو کرسی کی لڑائی سے فرصت نہیں، غریب کے گھر روٹی نہیں اس بارے میں کوئی سوچنے کو تیار نہیں ،شہر ہوں کہ دیہات کسی جگہ کے عوام کو تحفظ حاصل نہیں ،ادارے باہم دست و گریباں ہوتے نظر آتے ہیں ، صدر زرداری اس صورتحال پر بہت خوش نظر آتے ہیں ، اور گجراتی چوہدریوں اور منظو ر وٹو کے ذریعے پنجاب کو فتح ہوتے دیکھ رہے ہیں ،مسلم لیگ (ن) پرویز مشرف کے کروڑوں پتی پیاروں کو قبول کر کے اپنی راہ بنا رہی ہے ، عوام تیسراراستہ تلاش کر رہے ہیں ،اسی لیے وہ عمران خان سے امیدیں باندھ رہے ہیں لیکن بدنام اور لٹیروں کو اس نے قبول کر کے لوگوںکو مایوس کیا ہے۔
عمران خان کہتے ہیں کہ وہ کسی کو شامل ہونے سے انکار نہیں کر سکتے۔اگر واقعی ایسا ہے تو مصطفی کھر کو کیو ں قبول نہ کیا گیا ،عمران خان پارٹی میں جمہوری چلن لانے کے لیے الیکشن کرارہے ہیں ، بہت اچھا کررہے ہیں لیکن پہلے جمہوری مزاج تو تحریک انصاف میں پیدا کریں ، ایک سال پہلے ان کے کارکن پہلے ان کے کارکن اپنی جیب سے خرچ کر کے جلسوں میں جاتے تھے ، پارٹی پرچم کو اپنی جیب سے خرچ کر کے بناتے تھے ، اب کروڑوں پتی جلسوں ریلیوں اور کنونشنوں میں شرکت کے لیے کنوینس مہیا کرتے ہیں ،کھانے کا بندوبست کرتے ہیں دفتر چلانے کے اخراجات برداشت کرتے ہیں ،یوں انہوں نے تحریک انصاف کو دونوں پارٹیوں کے نقش قدم پر لگادیا ہے ، بلاشبہ عمران خان ایماندار ہے بہادر ہے اور سماجی میدان میں اس نے شاندار کارکردگی دکھا کر عوام کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنائی ہے ، عوام کہنے لگے کہ اب عمران خان کو آزمانا چاہئے لیکن عوام نا امید نہیں تو بدمزہ ضرور ہوئے ہیں ،عمران خان اب بھی اپنی سوچ کو بدل لیں تو با ت بن سکتی ہے،اگر وہ اپنی "ضد "پر قائم رہے تو وہ اپنے چاہنے والوں سے زیادتی کریں گے بلکہ لٹیروں کی حکمرانی جاری رکھنے کا الزام بھی ان پر لگے گا، انتخاب کے لیے انہیں امیدوار نامزد کردینا چاہئے ، یہ بات کہ ضلعی عہدیدار وں کے انتخاب کے بعد ان کی سفارشات کی روشنی میں امیدواروں کا اعلان کیا جائے گا ،محض طفل تسلی ہے ، ان کی مقبولیت دیکھ کر جو سابق بیوروکریٹ اور ریٹائرڈ فوجی افسرشامل ہوئے ہیں ، وہ توٹکٹ بانٹتے پھر رہے ہیں اور تحریک انصاف کو اشرافیہ کی لونڈی بنا رہے ہیں ، ساری اشرافیہ نواز جماعتوں کو اس وقت سے ڈرنا چاہئے جب بیروزگار نوجوانوں کا جم غفیر میدان میں آئے گا تو محلات اور بنگلوں میں رہنے والوں کو امن کی کوئی جگہ نہیں ملے گی ، ایسا ہو کر رہنا ہے ، ظلم کی انتہا ہو چکی اب تو خدائی کھیل شروع ہونے کو ہے جب خلق خدا راج کرے گی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024