حکومت کے لیے فیصلے کی گھڑی
پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران سے دوچار ہے۔ قومی آمدنی کے وسائل معدوم اور اخراجات بے قابو ہوئے جاتے ہیں۔ وسائل ہونے کے باوجود ان سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ تجارتی خسارہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ادائیگیوں میں توازن نہیں رہا۔ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا حجم کئی گناہ بڑھ چکا ہے۔ ڈالر اڑان بھرتا جا رہا ہے اور اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب چکے ہیں، باہر سے سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے کے لیے آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ ملک کی داخلی حالت ب بھی قابلِ رشک نہیں ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے بہت سے مسائل کو جنم دے رکھا ہے۔ سیاسی جماعتیں گروہی سیاست کے دائرے میں گھوم رہی ہیں لگتا ہے ملکی سیاست اور قومی مفاد ان کی ترجیح ہی نہیں۔ یہ ہیں وہ حالات ہیں جن میں تیرہ چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے مل کر حکومت تشکیل دے رکھی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں قائم اس حکومت کو کم و بیش ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہو چکا لیکن ابھی تک وہ کوئی ٹھوس قابلِ عمل معاشی پالیسی نہیں دے سکی۔ ایک گومگو کا عالم ہے جس میں ابہام اور کنفیوژن چھایا ہوا ہے۔ ملک کی اقتصادی حالت کے تناظر میں سری لنکا کے تکلیف دہ حالات کی مثال دی جا رہی ہے اور ماہرین معیشت اور محب وطن حلقے حکومت سے تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ فوری فیصلہ کرے کہ حکومت میں رہنا ہے تو ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ وزیراعظم اپنی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بڑے فیصلے کریں اور ڈوبتی ، غوطے کھاتی معیشت کی ناو ٔ کو کنارے لگانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اگر حکومت ان چیلنجز سے نبرد ازما نہیں ہو سکتی تو پھر اقتدار چھوڑ دے اور نئے انتخابات کا اعلان کر کے معاملات نگران حکومت کے سپرد کر دے۔ اس میں شک نہیں کہ حکومت اس وقت شدید دباو میں ہے ۔لیکن اس کے باوجود اب تک کے حکومتی اقدامات اور رویوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ حکومت سرِدست ایسے فیصلوں سے گریزاں ہے جن کے اثرات اس کی سیاسی مقبولیت میں کمی کا باعث بنیں۔ اس بات کا ثبوت اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کریں گے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی اس قسم کا بیان دے چکے ہیں کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی، کیوں کہ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایسا زبردست ریلا آئے گا جو حکومت کے حق میں پائے جانے والے عوامی جذبات کو خش و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کو بھی کہنا پڑا کہ سابقہ حکومت کی تباہی کا ٹوکرا اپنے سر نہیں لے سکتے ، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ حکومت ہی چھوڑ دیں، لیکن حکومتی اکابرین کے ان جذبات و احساسات کے باوجود اس کے سب سے بڑے اتحادی سابق صدر آصف علی زرداری حکومت چھوڑنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور نئے انتخابات کے انعقاد سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں۔
اگرچہ وزیر اعظم نے ملک کی معیشت میں بہتری کے حوالے سے فوری ازالے کے طور پر کفائت شعاری اپناتے ہوئے ملک کا قیمتی زرِمبادلہ بچانے کی غرض سے درجنوں پرتعیش درآمدی اشیاء پر تین ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔اور اس ضمن میں نئی برآمدی پالیسی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جس سے یقینی طور پر کرنٹ خسارہ کم ہو گا اور مجموعی طور پر4 ارب ڈالر کی بچت ہو گی لیکن یہ اقدامات ڈگمگاتی معیشت کی نائو کو سہارا دینے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے آئی ایم ایف سے چھوٹ حاصل کر کے کم شرائط پر قرضہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہو گی۔ ملک کے بڑے سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور ارب پتی سیاستدانوں سے بیرونِ ملک میں پڑی دولت پاکستان لانے کے لیے کوئی ایسی ترغیبی سکیم متعارف کروانا ہو گی کہ جس پر وہ کسی خوف اور تحفظات کے بنا اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کرنے پر تیار ہو جائیں۔ پاکستان میں صنعتی ترقی کے لیے خصوصی رعایتیں بھی دی جا سکتی ہیں۔بہر حال ملک کے معاشی حالات اس وقت اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وزیر اعظم کو واضح طور پر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ موجودہ بگڑے حالات کو سدھارنے ، اپنا ووٹ بنک بچانے اور اتحادیوں کو مطمئن رکھنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔ بلاشبہ وزیر اعظم کے لیے اب فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی ہے جس میں تاخیر ملک و قوم کے ہی نہیں خود ان کے لیے اور ان کی جماعت کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ ملک کے 22 کروڑ عوام اور اہل سیاست کی نظریں اس وقت ممکنہ حکومتی فیصلوں پر ہیں۔