ہائی پروفائل مقدمات میں تقرر و تبادلوں پر پابندی
کسی بھی ملک میں ادارے جب تک اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے آزادی سے کام کرتے رہتے ہیں تب تک اس ملک کے نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے یا کچھ عناصر اس کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو بڑھتے بڑھتے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں اداروں کا اپنی حدود سے تجاوز کرنا یا مختلف عناصر کی طرف سے ان کی آزادی ختم کرنے کی کوششیں کرنا معمولی بات ہے۔ پاکستان میں ایک ایسی ہی صورتحال کو بھانپتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے تفتیشی اداروں میں حکومتی اداروں کی مداخلت کے مبینہ تاثر کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کو ہائی پروفائل کیسز، خصوصی عدالت اور نیب کیسز میں تقرری وتبادلوں سے تاحکم ثانی روک دیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ سپیشل جج سینٹرل اور احتساب عدالت کے ججز کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے وفاقی حکومت سے گزشتہ چھے ہفتے کے دوران پراسیکیوشن اور تفتیش کے محکمہ میں ہونے والے تقرروتبادلوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں اور کہا ہے کہ بتایا جائے کس بنیاد پر اور کن کن لوگوں کے تقرروتبادلے کیے گئے ہیں۔ عدالت نے احتساب اور دیگر عدالتوں میں ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ سیل کرکے نیب اور سپیشل جج سینٹرل ججز کے کمنٹس کے ساتھ پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ اقدام واقعی لائقِ تحسین ہے کیونکہ اداروں پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ اگر ادارے کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد رہ کر اپنا کام کریں گے تو یہ ملک اور نظام دونوں کے لیے بہتر ہوگا بصورتِ دیگر اداروں پر دباؤ ڈالنے کی قیمت ملک اور نظام کو ادا کرنا ہوگی جسے کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔