ہفتہ ، 19 شوال 1443ھ‘ 21 مئی 2022ء
بھارتی عدالت کا متعصبانہ فیصلہ‘ جھوٹے مقدمہ میں یاسین ملک کو مجرم قرار دے دیا جبکہ دوسری جانب انتہاء پسند ہندوئوں نے اونگزیب کا مقرہ گرانے کا مطالبہ کر دیا۔
بھارت میں صرف انتہا پسند ہندو ہی مسلمانوں کے بیری نہیں بلکہ انکی عدالتیں بھی مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ تاریخی عمارتوں کی مسماری ہو یا جنونی ہندوئوں کے ہاتھوں مساجد کی شہادت‘ بھارتی عدالتوں نے ہمیشہ ہندوئوں کا ہی ساتھ دیا اور مسلمانوں کیخلاف فیصلے صادر کئے ۔ اب حریت رہنما یاسین ملک کو جھوٹے کیس میں مجرم قرار دے ڈالا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ یاسین ملک حریت پسند سرگرمیوں اور بھارت کیخلاف مجرمانہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان پر بھارت کیخلاف جنگ چھیڑنے کا بھی الزام ہے۔ حریت پسند سرگرمیاں دراصل بھارت کیخلاف آزادی کی وہ جنگ ہے جو حریت رہنمائوں اور کشمیری عوام پچھلے 70 سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں جسے بھارت اپنے خلاف سازش قرار دے رہا ہے اور باقاعدہ جنگ چھیڑنے سے تعبیر کر رہا ہے۔ حالانکہ ان پر جنگ چھیڑنے کا الزام تو تب درست ثابت ہوتا جب وہ اسلحہ بارود سے لیس ہو کر بھارت پر چڑھ دوڑتے مگر بے چارے کشمیری تو پچھلے ستر سال سے احتجاجی جنگ لڑ رہے ہیں جس پر نہ بھارت ٹس سے مس ہورہا ہے اور نہ عالمی اداروں کے کانوں پر کوئی جوں رینگ رہی ہے۔ بھارت صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں‘ انکی تاریخی عمارتوں سے بھی مخاصمت رکھتا ہے۔ گزشتہ دنوں انتہاء پسند ہندوئوں نے اورنگزیب کا مقبرہ بھی گرانے کا مطالبہ کر دیا ۔ یوں تو بھارت میں 38 عالمی ثقافتی ورثے کے حامل مقامات موجود ہیں‘ جن میں اکثر مسلمانوں نے تعمیر کی ہیں۔ تاج محل‘ قطب مینار‘ لال قلعہ‘ ہمایوں‘ اورنگزیب اور دیگر کئی سیاحتی مقامات ہیں جن سے بھارت کثیر زرمبادلہ کما رہا ہے اور جنونی ہندو انہی عمارتوں کے درپے ہوگئے۔ اگر وہ تعصب میں آکر ان عمارتوں کو مسمار کرکے انکی جگہ مندر تعمیر کرلیں گے تو بھارت کے ہاتھ پلے کیا رہ جائیگا۔ دنیا بھر کے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز تو یہی تاریخی عمارتیں ہیں۔ جس وقت یہ مقبرے اور عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں‘ اس وقت پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اورنگزیب عالمگیر کو کیا پتہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئیگا کہ انکے مقبرے کی ہندوستان میں جگہ تنگ کر دی جائیگی۔ اگر وہ جانتے کہ ہندوئوں کے متعصبانہ رویوں کے باعث اسی ہندوستان کی کوکھ سے ایک پاکستان جنم لے گا تو وہ اپنا سارا مال متاع اسی خطے میں تعمیر کراتے جہاں آج پاکستان ہے۔ پاکستان میں بھی ایسی کئی تاریخی عمارتیں موجود ہیں جو ہندو راجائوں ‘ مہاراجائوں اور بہبود کے کام کرنے والوں نے تعمیر کی ہیں۔ پاکستان انکی دل و جان سے حفاظت کرتا ہے۔ سرگنگا رام‘ گلاب دیوی‘ لیڈی ولنگڈن ہسپتالوں سے آج بھی ہزاروں لوگ مستفید ہو رہے ہیں‘ انہیں مسمار کرنا تو دور کی بات‘ کبھی انکے ناموں کی تبدیلی کے بارے میں بھی نہیں سوچا گیا۔ بس یہی فرق ہے پاکستان کے روشن چہرے اور بھارتی مکروہ چہرے میں‘ جسے وہ دنیا کے سامنے سیکولر کہتا پھرتا ہے۔
٭…٭…٭
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چمگادڑیں حملہ آور الوئوں سے بچنے کیلئے اپنی آواز بدل کر ڈنگ دار مکھیوں‘ تتلیوں کی بھنبھناہٹ جیسی نقل اتارتی ہیں یا شکل بدل لیتی ہیں۔
چمگادڑ کا شمار ممالیہ جانوروں میں ہوتا ہے۔ الٹا لٹک کر کھانا پینا اور منہ کے ذریعے ہی اخراج کرنے والا یہ شکاری پرندہ ہے۔ قدرتی ریڈار سسٹم کے ذریعے اپنا روٹ طے کرتا ہے اور اندھیروں میں راج کرنے والا یہ عجیب و غریب جاندار ہے۔چمگادڑوں کو عموماً دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اول، میگا کیروپٹرا جو بڑی ہوتی ہیں، دوم، مائیکرو کیروپٹرا جو چھوٹی ہوتی ہیں۔ تمام دوسرے ممالیہ کی طرح چمگادڑ کے بچے ماں کا دودھ پیتے ہیں۔ یہ واحد ممالیہ ہے جو اڑتا ہے۔ عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ چمگادڑیں اندھی ہوتی ہیں حالانکہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بڑی چمگادڑوں کی نظر انسانوں سے بھی بہتر ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنے دشمن کو دیکھ کر اپنی آوازیں یا شکل بدل لیتی ہیں اور اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہتی ہیں جبکہ الو کو ایک کم عقل اور بے وقوف پرندہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ کسی کو عقل کا کمتر یا بیوقوف کہنے کیلئے اِس پرندے کا نام کیوں لیا جاتا ہے؟ اگر کوئی غیرمتوقع حرکت کرگزرے تو اسے الو سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگ الو کو منحوس پرندہ مانتے ہیں لیکن انگریزی ادب میں الو کو اعلیٰ خوبیوں والا اور عقلمند پرندہ مانا جاتا ہے۔ ہندو مذہب میں الو کو ’لکشمی دیوی‘ کی سواری مانا جاتا ہے۔ یقیناً چمگادڑ کی طرح الوئوں میں بھی بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہونگی‘ فی الحال اس خبر کے تناظر میں تو اس نے خود کو نِرا الو ہی ثابت کیا ہے۔
٭…٭…٭
پیپلزپارٹی کی رہنماء شیری رحمان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پٹرول کی قیمتوں اور مہنگائی پر سیاست کررہی ہے۔
معلوم نہیں یہ سیاست دان بیان دینے سے پہلے سوچتے کیوں نہیں۔ اب بتائیں یہ اسی پیپلزپارٹی کی رہنما ہیں جس نے پی ڈی ایم سے اتحاد کرکے مہنگائی کو جواز بنا کر عمران خان کی حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر کامیاب کرائی اور انکی حکومت کو چلتا کیا۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت آئی تو عوام کو امید پیدا ہوئی کہ یہ حکومت جن حالات و واقعات کے بعد وجود میں آئی ہے ‘ضرور انہیں مہنگائی سے نجات دلائے گی اور انکے گھمبیر مسائل حل کرکے انہیں ہر ممکن ریلیف دیگی کیونکہ اس حکومت کے وزیراعظم ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر کی شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں تو سابقہ حکومت کے بگاڑے گئے معاملات مزید الجھتے نظر آرہے ہیں۔ مہنگائی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور معیشت کی حالت روز افزوں بگڑ رہی ہے جو وینٹی لیٹر کی طرف جاتی نظر آرہی ہے جبکہ حکومت پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے کیلئے بھی پر تول رہی ہے جس کے بڑھنے سے مہنگائی کا نیا طوفان عوام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ مہنگائی کا ہتھیار پہلے پی ڈی ایم کے ہاتھ میں تھا جسے وہ عمران خان کی حکومت کیخلاف استعمال کرکے حکومت میں آئی ‘اب وہی ہتھیار پی ٹی آئی کے ہاتھ میں ہے جسے لے کر وہ خوب واویلا مچا رہی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عوام کو صرف طفل تسلیوں پر زندہ رکھا ہوا ہے جو ان جماعتوں کے سیاسی پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ وہ بے چارے روز جیتے اور روز مرتے ہیں‘ ان کا اب کوئی پرسان حال نہیں ۔