ماحولیاتی تبدیلی ! اب فیصلہ کرنے کی آخری گھڑی ہے

نوع انسانی پر قدرت ہمیشہ مہربان رہتی ہے۔ موسمی آفات یا تبدیلی آنے سے پیشتر ان کے اشارے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جنھوں نے ان اشاروں کو سمجھا اور ان کا سدباب کیا وہ کامران ہوئے اور جو خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے، وقت پڑنے پر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں رہا۔ قریباً دس سال سے عالمی ماہرین دنیا کو تواتر کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کی خبریں دے رہے تھے۔ سب سے پہلے انھوں نے جنوبی افریقہ کے خوبصورت شہر کیپ ٹاؤن کو واٹر سٹریس ہونے کی خبر دیتے ہوئے انہیں پانی کے استعمال کے لئے منصوبہ بندی کی صلاح دی۔ صلاح کو رد کرنے کے تنیجہ میں دنیا کے خوبصورت ترین شہر کو کسی کی نظر کیا لگنی تھی، خود اپنے ہی اعمال کی سزا پا گیا۔ ہرے بھرے کھیت ہی ویران نہیں رہے سرسبزوشاداب باغات اور تفریح گاہیں بھی اجڑ گئیں بلکہ پینے کیلئے پانی کے بھی لالے پڑ گئے۔ ان حالات سے نبٹنے کیلئے پاپڑ بیلنے پڑے تب جا کر شہر کی کچھ رونقیں بحال ہوئیں۔ یہی الارمنگ صورتحال پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے حوالے سے دی جا رہی ہے۔ 2025 کو پاکستان سمیت کئی ممالک کے لئے واٹر سٹریس ہونے کا سال قرار دیا جا رہا تھا۔
جہاں تک پاکستان کے آبی وسائل کا تعلق ہے، کسی سے کم نہیں لیکن آپس کے بے معنی اختلافات کے نتیجہ میں ہم آبی مسائل سے دوچار ہیں۔ تربیلا ڈیم بننے کے بعد پاکستان کے آبی وسائل کی فراہمی کی وجہ سے چاروں صوبوں کی لاکھوں ایکڑ بنجر زمینیں سیراب ہوئیں۔ عالمی بینک کے تعاون سے ہونے والی سٹڈی میں واضح کر دیا گیا تھا کہ موجودہ سیٹ اپ سے مسلسل فائدہ اٹھانے کیلئے 1990 تک کالاباغ ڈیم بنانا پڑے گا اور اس کے دس سال بعد بھاشا۔ اس دوران پورے انڈس بیسن کی سٹڈی کرتے ہوئے مستقبل کے چیلنجز کے حوالے سے پلاننگ کی جائے۔ 1975 میں تربیلا ڈیم کی جھیل مکمل فعال تھی ۔ تمام تر استعمال کے بعد بھی 31 مارچ کو 3.5 MAF پانی موجود ہوتا تھا جو ربیع کی فصل کے آخر اور خریف کی فصل کی بوائی کیلئے کافی ہوتا تھا۔ لیکن اب 9.7 MAF کے تربیلا ڈیم کی جھیل چھ ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم رہ گئی ہے جس کی وجہ سے مارچ کے مہینہ میں پانی ڈیڈ لیول پر پہنچ جاتا ہے۔ اس سال تو سلٹ کی وجہ سے یکلخت اندازہ ہوا کہ ڈیڑھ لاکھ ایکڑ فٹ پانی مزید کم ہو گیا ہے۔ ان حالات میں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں خریف کے فصل کی بوائی کیلئے پانی کا ملنا ندارت ہو چکا ہے بلکہ ربیع کی فصل کیلئے آخری پانی کے بھی مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ گذشتہ سال یکم اپریل سے 10مئی کے دوران پانی کی قلت 25% تھی جو امسال بڑھ کر 31% ہو چکی ہے۔
قدرت ہمیں ایک عرصہ سے تنبیہہ کر رہی تھی کہ آبی وسائل کی فراہمی کیلئے موزوں منصوبہ بندی کر لی جائے لیکن ہم آپس میں دست وگریباں رہے۔ 2021ء سے قدرت کے اشارے ہمیں شدید خطرے کی وارننگ دے رہے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان کے مستقبل اور چاروں صوبوں کی بہتری کیلئے کیا لائحہ عمل اختیار کی جائے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے کالاباغ ڈیم کے حوالے سے اٹھائے گئے اعتراضات کو غلط قرار دینے کے بعد فیصلہ دیا تھا کہ چونکہ بھاشا اور مہمند ڈیموں کے بارے میں اتفاق رائے ہے، اس لیے ان پر تیزی سے کام کیا جائے۔ اسکے ساتھ ہی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آبی مسائل کے حوالے سے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پلاننگ کرنی چاہیے۔
اتنے واضح فیصلہ کے باوجود ہم نے ان دونوں ڈیموں کی تعمیر میں انتہائی کوتاہی برتی۔ پچھلے سال اپریل مئی کے نازک وقت میں جب ربیع کی فصل پکنے کو تیار ہوتی ہے اور سندھ وبلوچستان میں خریف کی بوائی کیلئے پانی درکار ہوتا ہے، پچھلے سال 25% اور امسال 31% کی قلت ہمیں قدرت کے اشاروں اور ماہرین کی وارننگ کا سختی سے ادراک کروا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی مسلسل خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے کہ آئندہ سالوں میں پانی کی قلت بڑھتی جائے گی۔ اس سال موسم گرما کے آغاز میں ہی 25 ہزار فٹ کی بلندی پر شیسپر گلیشیئر پگھل کر بہہ چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور کیا گل کھلائے گی، کبھی سیلاب آئیں گے اور کبھی گلیشیئر پھٹیں گے۔ شدید سیلابوں سے اربوں ڈالر کی معیشت کے علاوہ قیمتی جانیں بھی جائیں گی اور پھر پانی کی شدید کمی ہماری زندگی اور موت کا سبب بن جائے گی۔ بھوک، افلاس ہمارا مستقبل بن جائے گا۔ پیٹ کا ایندھن بجھانے کیلئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے۔ ماہرین کے دیئے گئے وقت میں محض دو تین سال کا وقت رہ گیا ہے۔ اس دوران بھرپور وسائل ہوں تو بھی بھاشا ڈیم کی تعمیر کسی صورت ممکن نہیں۔ اس قلیل وقت میں صرف کالاباغ ڈیم ہی پاکستان کے مستقبل کی کنجی ہے۔ تیزرفتاری سے کام کیا جائے تو کالاباغ ڈیم کی جھیل دو سال میں مکمل کی جا سکتی ہے جس سے پانی کی کمی کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ تربیلا ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد میں بھی 30% اضافہ ہو جائے گا۔اگر ہم نے اب بھی ہوش نہ سنبھالا تو وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت تمام مقتدر ادارے پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار ہوں گے۔ہماری مقتدر اداروں اور خصوصاً چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ اس انسانی مسئلہ پر سوموٹو ایکشن لیں تاکہ پاکستان کو بدحالی اور بھوک وافلاس سے بچایا جا سکے۔