اف یہ ’پانی فروش‘

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ہر چیز پانی سے پیدا کی اور پھر نبی کریم کا فرمان بھی تو ہے کہ پانی کی قدر کرو۔ پانی زندگی ہے۔ خشک اور جلتی ہوئی زمین کو سالہاسال کے برستے پانی ہی نے ٹھنڈا کیا اور پھر پانی ہی کی بدولت اس پر زندگی نے جنم لیا۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے جہاں شدید خشک سالی اور پانی کی قلت کا خدشہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ اس سرزمین کو پانچ دریاوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہ پانی کی قدرومنزلت ہی ہے کہ حضرت حاجرہ کی تڑپ اور ایک شیرخوار بچے کے پاوں کی ٹھوکر سے آب زم زم کا چشمہ پھوٹ پڑتا ہے اور وہ اتنی تیزی سے پھوٹتا ہے کہ حضرت حاجرہ کو زم زم یعنی ٹھہر جا، ٹھہر جا، کہنا پڑتا ہے۔ جی ہاں جس معصوم بچے کے نازک سے پاوں کی ٹھوکر سے زمین خود کو پھاڑ کر چشمہ نکال دیتی ہے وہ بڑے ہو کر نہ صرف پیغمبر کا درجہ پاتے ہیں بلکہ نبی آخر زماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہی کی اولاد میں سے چن کر انسانیت کی رہنمائی کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔
آج چولستان سمیت پاکستان کا سارے کا سارا جنوب پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ پنج دریاوں کی سرزمین پنجاب کا پنچ تو اسی وقت ہی ختم ہو چکا تھا جب تین دریا بھارت کو سندھ طاس معاہدے کے تحت دے دئیے گئے تھے۔ آپ ضلع قصور اور ضلع بہاولنگر کے درمیان بھارت اور پاکستان کی سرحد پر اس علاقے میں جائیں جہاں سے دریائے ستلج پاکستان میں داخل ہو کر بہاولنگر بہاولپور، پاکپتن، وہاڑی، ملتان اور لودھراں کی سرحدوں کو چھوتا ہوا ہیڈ پنجند کے مقام پر دریا ئے سندھ میں شامل ہوتا تھا۔ پاک بھارت باڈر پر اس مقام پر ہماری طرف قلت ہی قلت اور باڈر کے اس پار پانی ہی پانی ہے۔ وہاں جا کر احساس ہوتا ہے کہ کس طرح تختے لگا کر دریا کو بند کر دیا گیا ہے اور دریائے ستلج کا وہ پانی جو ان اضلاع کو سیراب کرتا تھا کیسے بھارتی ریگستان کو گرین بیلٹ میں تبدیل کر چکا ہے۔ ہماری زیرو لائن عجیب تکلیف دہ منظر پیش کرتی ہے۔ بارڈر کے پار سرسبز فصلیں اور ہماری طرف اڑتی دھول۔ دریائے ستلج کی ذیلی بیلٹ میں ایک طرف زیر زمین پانی مسلسل گہرا ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف اس زیر زمین پانی میں سنکھیا جیسے زہر کی مقدار تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ چولستان پانی کو ترس رہا ہے دریائے ستلج کیا ختم ہوا ہاکڑا کی پوری تہذیب ہی نے مکمل طور پر دم توڑ دیا۔ نہ جانے ان غداروں کے ساتھ کیا بیت رہی ہو گی جنہوں نے اس دور میں ایسے معاہدے کئے جو سراسر بھارت کے حق میں تھے۔ ایک تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ معاہدہ تیار کرنے والے کوتاہ اندیشوں نے تین دریا تو بھارت کو دے دئیے البتہ بھارت سے فیکٹریوں کا آلودہ اور زہریلا پانی لیکر پاکستان میں داخل ہونے والے تین گندے نالے اسی معاہدے کے تحت اسی طرح جاری رہنے دئیے گئے اور پاکستان گزشتہ 57 سال سے بھارت سے آنے والے زہریلے پانی کو اپنے دریاؤں راوی اور چناب میں شامل کر کے ملک بھر کی اراضی کو آلودہ اور لوگوں کو بیمار کر رہا ہے۔ دریائے راوی میں لاہور کے نواحی علاقے موھلنوال کے قریب جہاں بھارت سے گندہ اور زہریلا پانی لیکر آنے والی ہڈیارہ ڈرین کا پانی جب دریا کے پانی میں شامل ہوتا ہے تو وہاں بدبو اور گندگی سے ہر کوئی متاثر ہوتا ہے مگر یہ ہمارے ارباب اختیار کو کبھی بھی دکھانی نہیں دیا۔ لاہور میں ہڈیارہ ڈرین جہاں جہاں سے بھی گزرتی ہے اردگرد کی آبادیوں کو متاثر کرتی ہے مگر اس وقت کے متعلقہ افسران نے نہ جانے کس مجبوری کے تحت چپ سادھے رکھی ،جب یہ شرمناک معاہدہ ہو رہا تھا اور ہم ازخود اپنے ہاتھ کاٹ کر طشتری میں سجا کر یہ معاہدہ بھارت کو پیش کر رہے تھے۔
کبھی دریائے راوی کی گھگا مچھلی ذائقے کے حوالے سے بہت مشہور تھی اور خوانچہ فروش گلیوں میں آوازیں لگایا کرتے تھے۔راوی دے گھگے۔ اب وہی گھگہ مچھلی بھارت سے آنے والے تھوڑے سے پانی میں بہہ کر بہت کم مقدار میں کبھی کبھار پاکستان آ تو جاتی ہے مگر شادباغ کے علاقے میںجونہی گندے پانی کی شمولیت دریائے راوی کے تھوڑے سے میٹھے پانی میں ہوتی ہے تو یہ تمام مچھلیاں مر جاتی ہیں اور اگر کوئی بچ جائے تو ہڈیارہ ڈرین کے گندے پانی کی نذر ہو جاتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ارباب اختیار کے علم میں یہ عالمی ماحولیاتی فیصلہ نہیں ہے جس پر عمل کرنا دنیا بھر کے تمام ممالک کی لازمی ذمہ داری ہے کہ کوئی بھی ملک آبی حیات، لائیو سٹاک، جنگلی حیات اور جنگلات کے لئے پانی نہیں روک سکتا ۔ اگر یہ فیصلہ موجود ہے تو اس فیصلے کے تحت بھارت دریائے ستلج دریائے راوی اور دریائے چناب میں 20 فیصد پانی چھوڑنے کا انہی عالمی قوانین کے تحت پابند ہے تو پھر یہ ’’محب وطن‘‘ بااختیار گزشتہ پانچ دھائیون سے آواز کیوں بلند نہیں کرتے اور عالمی عدالت انصاف کا دروازہ اس قانون کے حوالے سے کیوں نہیں کھٹکھٹاتے۔ کس قسم کی ٹیپ ہے جو ان کے لبوں کو مسلسل بند کئے ہوئے ہے کہ ان کی ملی غیرت جاگنے کا نام ہی نہیں لیتی اور ہزاروں جاندار پانی کی کمی سے تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ کیا حکم ربی کے تحت یہ چرند پرند اور چوپائے ان کی رعایا نہیں ہیں اور کیا روز محشر ان بااختیاروں سے ان کی اس رعایا بارے سوال نہیں کیا جائے گا۔ یہ کس منہ سے اس دن خدائے عزوجل کا سامنا کریں گے اور کیا دلیل لائیں گے کہ انہیں کس قسم کی مجبوری نے روکے رکھا۔ انسان تڑپتے اور جانور مرتے رہے مگر یہ کس مجبوری کے تحت خاموش رہے۔ تیاری کر لیں، سوال جواب بہت سخت ہوں گے اس ایک دن، کہ جو پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔