صدارتی ریفرنس کا فیصلہ، ممکنہ اثرات

پاکستان کے سیاسی ادارے چونکہ کمزور ہیں اس لیے گاہے بگاہے ملک کے اندر آئینی اور سیاسی بحران پیدا ہوتا رہتا ہے۔سیاست دان مسائل پارلیمنٹ کے اندر حل کرنے کی بجائے ریاستی اداروں کی جانب دیکھنے لگتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران بھی آئینی بحران پیدا ہوگیا تھا۔ آئین کے تقاضوں کے مطابق تحریک اعتماد کو منطقی انجام تک پہنچانا مشکل ہو گیا۔
حکومتی جماعت تحریک انصاف کے لیڈروں کا موقف تھا کہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ نہیں دے سکتے۔ اگر پارٹی لیڈر ان کو منحرف قرار دے دے تو سپیکر کے پاس یہ استحقاق ہے کہ وہ منحرف اراکین کے ووٹوں کو گنتی میں شمار نہ کرے۔ جب آئینی اور سیاسی بحران پیچیدہ ہو گیا اور مختلف آراء سامنے آنے لگیں تو صدر پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 186 کے مطابق سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا جس میں چار سوالات سپریم کورٹ کے سامنے رکھے گئے تاکہ منحرف اراکین کے بارے میں سپریم کورٹ سے رہنمائی حاصل کی جا سکے۔
پہلا سوال : کیا منحرف اراکین ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
دوسرا سوال: کیا ان کا ووٹ مساوی طور پر شمار ہوگا۔
تیسرا سوال : کیا ایسے منحرف اراکین تاحیات نااہل قرار پائیں گے۔
چوتھا سوال: ایسے اقدامات جن سے ووٹوں کی خرید و فروخت کا سد باب کیا جا سکے۔
سپریم کورٹ کے پانچ محترم ججوں نے چیف جسٹس پاکستان محترم عمر عطا بندیال کی سربراہی میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کی اور دو ماہ کے بعداکثریت رائے سے فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اسد اللہ غالب کا یہ شعر یاد آ گیا
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
عدلیہ نے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے اراکین اسمبلی کو پارٹی سربراہ کی رائے کا پابند بنایا گیا ہے۔ جب ایوان میں عدم اعتماد یا اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہو، وزیراعظم منتخب کیا جا رہا ہو، منی بل پیش کیا گیا ہو یا آئینی ترمیم پیش کی گئی ہوں تو ان چاروں صورتوں میں اراکین اسمبلی پارٹی سربراہ کی ہدایت کے پابند ہوتے ہیں اور لیڈر کے فیصلے کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے۔ جو اراکین اسمبلی اپنی جماعت کے لیڈر کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیں گے ان کو شمار نہیں کیا جائے گا۔
آئینی ماہرین سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تاریخی اور یادگار قرار دے رہے ہیں۔پانچ رکنی بینچ کے تین محترم ججوں نے پہلے اور دوسرے سوال کے بارے رائے دی ہے کہ جو رکن پارلیمنٹ اپنے پارٹی لیڈر کی ہدایت کے خلاف جائے گا اس کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔کیونکہ ایک رکن کی رائے پارٹی لیڈر کی رائے سے با لانہیں ہو سکتی۔ لازم ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام کو مستحکم بنایا جائے۔ آئین میں جب آرٹیکل 63 اے شامل کی گئی تھی تو اس کا مقصد یہی تھا کہ پارٹی کے حق کو محفوظ بنایا جائے۔ سیاست کو خرید و فروخت کے عمل سے کمزور نہ کیا جائے۔
یہ موقع ہے کہ پاکستان میں سیاسی جمہوری نظام کو مستحکم بنایا جائے تاکہ پاکستان میں سیاسی استحکام کے بعد معاشی استحکام کی جانب بڑھا جا سکے۔ تین محترم ججوں نے صدارتی ریفرنس میں شامل تیسرے اور چوتھے سوال کے بارے میں رائے دی ہے کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ قانون سازی کرے اور منحرف اراکین کی نااہلی کی مدت کا تعین کرے۔ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے یہ رائے طلب کی گئی تھی کہ جو رکن پارٹی لیڈر کی رائے کے برعکس ووٹ دے کیاوہ تاحیات نااہل قرار پائے گا۔ پانچ رکنی بینچ میں شامل محترم جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور محترم جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ آئین کی آرٹیکل 63 اے واضح اور مکمل کوڈ ہے اس کی مزید تشریح کرنا نیا آئین لکھنے کے مترادف ہوگا جس کا عدلیہ کو استحقاق نہیں ہے اور یہ کام صرف پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے۔ آرٹیکل 63 اے میں یہ درج ہے کہ پارٹی لیڈر جن ارکان کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی وجہ سے نااہل قرار دے گا ان کا کیس چیف الیکشن کمشنر کو ریفر کیا جائے گا جو 30 دن کے اندر ان کی نااہلی کا فیصلہ دیں گے۔ جس کے بعد منحرف اراکین کی اسمبلی کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ متاثرہ اراکین الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر سکیں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان کے آئینی اور قانونی ماہرین نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے کے اثرات وفاق اور پنجاب کی حکومت دونوں پر مرتب ہوں گے۔ صدر پاکستان وزیراعظم پاکستان کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خیال میں چونکہ وزیراعظم کو ایوان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں رہالہٰذا وہ دوبارہ اعتماد کا ووٹ لیں۔
پنجاب کے وزیر اعلی کے انتخاب کے سلسلے میں تحریک انصاف کے 26 اراکین اسمبلی نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھاان کا کیس الیکشن کمیشن کے پاس زیر سماعت ہے البتہ صدارتی ریفرنس کے مطابق جو فیصلہ آیا ہے اس کی روشنی میں حمزہ شہباز کو دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا۔ بعض آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس میں جو فیصلہ قرار دیا ہے وہ ماضی کے اقدامات پر لاگو نہیں ہو سکتا اور اس کا اطلاق مستقبل میں ہی کیا جائے گا۔ مسلم لیگ نون کے لیڈروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اگر ان کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑا تو وہ اس میں ایک بار پھر کامیاب ہو جائیں گے۔پاکستان کا سیاسی اور جمہوری نظام اس حد تک زوال پذیر ہو چکا ہے کہ جن سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے الزام میں مقدمات زیر سماعت تھے وہ اقتدار پر فائز ہو چکے ہیں۔
میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اتحادی حکومت کے با اثر افراد اپنے خلاف مقدمات کو ختم کرانے کے لیے ریاستی اداروں پردباؤ ڈال رہے ہیں تفتیشی افسران کو تبدیل کیا جا رہا ہے اور ریکارڈ تبدیل کرنے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی اہم تبادلے بھی کیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ازخود نوٹس لے لیا ہے اور وفاقی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ تبادلے روک دے اور بااثر افراد کے مقدمات کا ریکارڈ سیل کر دیا جائے۔ سپریم کورٹ کا آئینی فرض ہے کہ وہ آئین کی عملداری کو یقینی بنائے اس ضمن میں چیف جسٹس پاکستان کا از خود نوٹس قابل ستائش ہے۔