’’تبدیلی‘‘ کے بعد
’’تبدیلی‘‘ کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں مخلوط حکومت ایسے بھنور میں پھنس چکی ہے کہ ایک طرف عمران خان کا دبائو ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور اب تو ادارے بھی اس دبائو کو محسوس کرنے لگے ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن کے بغیر پارلیمان کے اندر اور باہر لئے گئے مشکل معاشی فیصلوں کی ساکھ اور ان کے موثر ہونے کے حوالے سے خدشات وزیراعظم شہباز شریف کو اندر ہی اندر کھائے جا رہے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف، جن کی شہرت اچھے منتظم کے طور پر مسلمہ حیثیت اختیار کر چکی تھی، ان پانچ ہفتوںکے دوران مسلسل ناکامیوں اور اتحادیوں کے اندر موجود باہمی اعتماد کے فقدان نے ان کے خدشات بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی ساکھ بھی دائو پر لگا دی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا یہ خیال تھا کہ متحدہ اپوزیشن کو مارچ میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی ہی نہیں چاہیئے تھی، ان کے بقول یہ ٹائمنگ اپوزیشن کی بجائے ''کسی اور'' کو سوٹ کرتی تھی اور اپوزیشن کو سہلوت کار کے طور پر صرف استعمال کیا گیا، اس دعوے کی دلیل ان تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ تھی کہ اس موقع پر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیا جانا متحدہ اپوزیشن کی نہیں بلکہ کسی اور کی ضرورت ہے اور سیاسی طور پر عمران خان سے کہیں زیادہ سمجھدار اور منجھی ہوئی اپوزیشن جماعتوں کو کسی اور قوت کا آلہ کار نہیں بننا چاہیئے۔ دعوے کے بقول اس طرح تحریک انصاف اور عمران خان نہ صرف جون میں بجٹ منطور کروانے میں ناکامی پر خود بخود گھر چلے جاتے اور اپوزیشن پر الزام بھی نہ آتا، ان کے بقول عمران خان اپنی نااہلی اور ناقص کارکردگی کے بوجھ تلے ایسے دب جاتے اور آئندہ عام انتخابات میں عوام ان کا استقبال اس طرح کرتے کہ وہ دوبارہ کبھی تبدیلی کا نام بھی نہ لے پاتے لیکن اچانک ''انتہائی گھاگ سیاسی رہنمائ'' مولانا فضل الرحمان کی
سربراہی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں، تین بار وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہنے والے قسمت کے دھنی سابق وزیراعظم نواز شریف اور شاطرانہ سیاسی چالوں کے ماہر '' زرداری، سب پر بھاری'' آصف علی زرداری ''کسی'' کی انا کی خاطر وہ بچگانہ سیاسی چال چل بیٹھے کہ سیاست میں اناڑی کپتان نے سب کو ایک ہی بال میں آئوٹ کر دیا۔ سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ کل کی متحدہ اپوزیشن نے وہ فاش غلطی کی ہے جس کا خمیازہ وہ آج بھی بھگت رہے ہیں اور آئندہ الیکشن میں بھی بھگتیں گے۔ بالفرض متحدہ اپوزیشن اگر مارچ میں پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ''ریجیم چینج آپریشن'' کی سہولت کار نہ بنتی تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اپنی ناقص کارکردگی کے بوجھ تلے اس قدر دب چکے ہوتے کہ جون میں بجٹ منظور کروانے میں ناکام رہتے اور خود بخود گھر چلے جاتے جس کے بعد نہ امریکی سازش کا بیانیہ منظر عام پر آتا اور نہ ہی تبدیلی سے مایوس پی ٹی آئی کے شدید ناراض حامی واپس عمران خان کی طرف لوٹتے، اب تو یہ عالم ہے کہ جس قدر شہباز شریف حکومت کو اپنے خلاف قائم مقدمات ختم کروانے اور نواز شریف اور مریم کی سزائیں ختم کروانے کی جلدی ہے اسی قدر عمران خان کو آئندہ عام انتخابات کا انتظار ہے اور اسی لئے وہ حکومت اور اس کے پیچھے قوتوں کو دبائو میں لانے کے لئے اسلام آباد میں دھرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس بار پی ٹی آئی کے کارکن اس قدر پرجوش بلکہ ہیجان میں مبتلا ہیں کہ وہ شدید گرمی کی بھی پرواہ کرنے کو تیار نہیں، اگرچہ محکمہ موسمیات کی جانب سے شدید گرمی کی لہر کے متعلق بار بار انتباہ جاری کیا جا رہا ہے لیکن حالیہ بارشوں سے پی ٹی آئی کے کارکنان اس کو بھی حکومتی پراپیگندا تصور کرتے ہیں ۔ پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اوپر سے دوست ممالک نے امداد یا قرضہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی قسط سے مشروط کر رکھا ہے جس کا مطلب ہے کہ پہلے سب سڈی ختم کرو، معیشت پر بوجھ اداروں کی نجکاری کرو اس کے بعد قرضہ ملے گا اور جب آئی ایم ایف قرضہ دے گا تو پھر سعودی عرب، چائنہ اور دیگر ممالک بھی امداد کو آگے آئیں گے۔ اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کی معاشی ٹیم مذاکرات میں مصروف ہے جو دوحہ میں ہو رہے ہیں لیکن ملک میں سیاسی بے یقینی کی صورتحال اس قدر شدید ہے کہ پاکستان وفد کی قیادت وزیر خزانہ کی بجائے سیکرٹری خزانہ کر رہے ہیں اور ان کے ہمراہ چیئرمین ایف بی آر اور قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک بھی موجود ہیں، ذرائع کہتے ہیں کہ وزیرخزانہ اس لئے وفد کے ہمراہ نہیں گئے کہ اگر آئندہ دو تین روز میں حکومت ہی تحلیل کر دی گئی تو پھر کیا ہو گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ابھی تکنیکی سطح کے مذاکرات ہیں جو 23مئی تک جاری رہیں گے جب کہ ابتدائی مذاکرات میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے زیادہ ترمطالبات تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے سبسڈی میں کمی کرنے اور نجکاری کے لیے ٹائم فریم دینے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ اگر مخلوط حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو سب سڈی کے خاتمے کے بعد مہنگائی کا جو طوفان آئے گا جس کے نتیجے میں کم از کم مسلم لیگ (ن) کو آئندہ عام انتخابات میں ویسی ہی صورتحال درپیش ہو گی جس کا پی ٹی آئی کو سامنا کرنا پڑنا تھا۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف لاہور سے مہنگائی مارچ لے کر اسلام آباد پہنچے تھے، جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی مہنگائی کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور ایمپائر کے نیوٹرل ہونے کے بعد اپوزیشن کی بھرپور کوششوں کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کامیاب تو ہو گئی مولانا فضل الرحمان کے بیان کے بقول ''خزاں جائے، بہار آئے نہ آئے'' کے مصداق اب خزاں تو جا چکی ہے لیکن بہار کا دور تک نام و نشان نہیں، ہر آنکھ کرامت کی منتظر ہے لیکن حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ عمران خان کا بیانیہ ایک بار پھر عوام نے قبول کر لیا ہے ایسے میں اگر ایمپائر نیوٹرل ہی رہا تو حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔