’’ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں ‘‘

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کو پاکستان کے قومی مفادات کے عین مطابق قرار دینا کئی لحاظ سے خوش آئند ہے، مثلا مذکورہ بیان کے بعد وطن عزیز میں کسی نہ کسی حد تک یہ تاثر ابھرا کہ ہمارے اہل سیاست اہم ملکی فیصلوں میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے اجتناب کرنے کا فریضہ باخوبی انجام دے سکتے ہیں، امریکہ میں پریس بریفینگ کے دوران بلاول بھٹو کا کہنا یوں اہم تھا کہ سیاسی طور پر پاکستان میں اختلافات ہوسکتے ہٰیں مگر سابق وزیر اعظم کے دورہ روس کی حمایت کروں گا‘‘ وزیر خارجہ کے مذکورہ بیان کو دیکھنے کا مثبت انداز تو یہی ہے عام پاکستان اس پر یقین کرلے کہ ہمارے اہل سیاست بتدریج ہی سہی مگر سیاسی پختگی کی جانب رواں دواں ہیں مگر دوسری کا دوسرا رخ بتانے والوں کے بعقول حالیہ دنوں میں عمران خان پوری قوت سے امریکہ مخالف بیانیہ لے کر جلسے جلوس کررہے چنانچہ وزیر خارجہ نے یہی مناسب سمجھا کہ سابق وزیر اعظم کے دورہ روس کو ان کی’’ غلطی ‘‘نہ کہا جائے . یہ ہم جانتے ہیں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں داخلہ اور خارجہ پالیسوں کو الگ الگ رکھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ، عام فہم میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے سیاست دانوں کی کمی نہیں جو ملکی تقاضوں کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھتے چلے آرہے ہیں، قومی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ رجحان کسی طور پر اطمنیان بخش نہیں کہی جاسکتا، اب صورت حال یوں پچیدہ ہوچکی کہ عمران خان ایسا سیاسی بیانیہ لے کر عوام میں متحرک ہیں جس کے نتیجے میں امریکہ اور
پاکستان کے تعلقات براہ راست متاثر ہوسکتے ہیں ، وزیر اعظم شہبازشریف ہی نہیں ان کی حکومت میں شامل دیگر اتحادی بھی عمران خان کے نشانے پر ہیں ، پی ٹی آئی چیرمین نئی حکومت پر غیر ملکی مداخلت کے زریعہ اقتدار میں آنے کا الزام تواترکساتھ لگا رہے ہیں ، حالات کچھ یوں ہوچکے کہ ایک طرف ملک کی معاشی حالت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی اور دوسری طرف امریکہ جیسے اہم ملک کو پاکستان کے سیاسی معاملات میں مبینہ مداخلت پر قصور وار ٹھرایا جارہا ، تازہ پیش رفت یہ ہوئی کہ سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 A بارے فیصلے میں وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے ، یہی سبب ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہوری پرویز الہی نے حمزہ شبہاز کے بطور وزیر اعلی انتخاب چیلنج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے . کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی بحران موجود ہے جو کمزور معاشی صورت حال کے ساتھ مل کر مذید مسائل پیدا کررہا ہے ۔ ایسے میں اعلی ترین سطح پر ایک سے زائد مفروضوں کا پیدا ہونا فطری عمل ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جب جب سیاسی غیر یقینی کا دور رہتا ہے ، سازشوں اور افواہوں کی بازگشت تیز ہوجایا کرتی ہے ، یعنی افراتفری کے ماحول میں ظالم اور مظلوم میں فرق کرنا مشکل ہو جایا کرتا ہے ، حقیقت کچھ بھی ہو مگر بہرکیف طے ہے کہ آئندہ چند دنوں میں حکومت اہم فیصلہ لے سکتی ہے جس کے اثرات سیاسی ہی معاشی محاذ پر بھی ظہور پذیر ہوسکتے ہیں، ایک تاثر یہ ہے کہ اتحادی حکومت فوری اور ٹھوس فیصلے سازی کے عمل سے محروم ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ، سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی سیاسی حکومت کو بہت کچھ دیکھ سمجھ کر فیصلے لینے پڑتے ہیں ، پاکستان جیسے ملک میں جہاں طاقت کے کئی مراکز ہیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ، اس ضمن میں نمایاں مثال قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور پھر عدالتی فیصلے پر عمل کرانے سے متعلق ہے ، نہیں بھولنا چاہے کہ سیاست اعصاب کے امتحان کا دوسرا نام ہے چنانچہ اگر توقعات کے عین مطابق عمران خان اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اوردھرنے کا اعلان کرتے ہیں تو اس سے نمٹنے کے لیے کسی ڈرامائی قدم کی توقع کرنا ہرگز غیر حقیقت پسندانہ نہ ہوگا۔ حکومتی زرائع کا دعوی ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم کو بطور اپوزیشن لیڈر مذید پذائری دینے کے حق میں نہیں چنانچہ کوشش ہے کہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کے دھرنے یا لانگ مارچ سے سیاسی طور پر یوں نمٹا جائے کہ وہ اپنی اہمیت کھو دے ۔سرکاری حلقوں میں اس پر بھی اتفاق ہے کہ اگر عمران خان کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ 48سے 72 گھنٹوں کے اندر ہی عدالت سے ضمانت کروا کر ایک بار پھر حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہوں ، سرکاری حکام کے بقول اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کوئی ایسی ٖغلطی کریٰں جس کا خمیازہ انھیں وسیع پیمانے پر سیاسی نقصان کی شکل میں برداشت کرنا پڑے ،معاملہ کا ایک اورپہلو بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہے ، مثلا روس اور یوکرائن جاری جنگ میں پاکستان پر مسلسل دباو ہے ، یعنی ایک طرف امریکہ کی خواہش اور کوشش ہے کہ اسلام آباد دوٹوک انداز میں روسی حملے کو جارحیت قرار دے کر مذمت کرے دوسری طرف روس اور چین ہے جو پاکستان سے اس تنازعہ میں غیر جانبدار رہنے کی امید لگائے ہوئے ہیں ، یوں عوام کے لیے موجودہ حالات کو اقبال کے شعر میں یوں بھی بیان کہا جاسکتا ہے
ستاروںسے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں