نعمتوں کی قدرکریں

بنیادی وسائلِ زندگی کی عدم فراہمی یا کمی سے زندگی کے رنگ مدہم پڑجاتے ہیںاور زندگی کا مزہ خراب ہو جاتا ہے۔ ہم بہت بے قدری سے وسائل ضائع کر رہے ہیں جیسا کہ پانی ، بجلی اور گیس۔ گلیوںمحلوں میں اور مساجد کے باہر لگی ٹوٹیوں، نلکوں اور فلٹر پلانٹ وغیرہ پر بے پروائی سے پانی ضائع ہو رہا ہے۔ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن ہمیں اس کی ذرا بھی قدر اور پروا نہیں۔ ہر نعمت کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔ محلوں میں ارد گرداور سامنے کے گھروں کو پانی فراہم کرنے کے لیئے موٹریں لگی ہوتی ہیں لیکن اکثر پائپ لیک یا پھٹے ہونے کی وجہ سے بہت پانی ضائع ہو تا ہے۔ گائوں میں بھی ٹیو ب ویل اور فصلوں کو پانی دینے کے دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اضافی پانی لگ رہا ہوتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ گلیوں میں پانی کے گزرتے ہوئے پائپ کافی جگہ سے پھٹے اور لیک ہوتے ہیں۔ پانی لگاتار ضائع ہوتا ہے جو نالیوں اور نالہ لئی میں بہہ کر ناکارہ ہو جاتا ہے۔ وہی پانی اگر محفوظ کر لیا جائے تو کئی گھروں کے کام آسکتا ہے۔ اسی طرح اگر پائپ لیک اور پھٹے نہ ہوں اور ٹوٹیاں، نلکے اور فلٹر پلانٹ کو سمجھداری کے ساتھ استعمال کیا جائے تو کافی پانی محفوظ ہو سکتا ہے جو آنے والے وقتوں کے لیئے کام آ سکتا ہے۔ اگر ہم ایسے ہی پانی ضائع کرتے رہے تو جلد ہی پانی کی کمی کا شکار ہو جائیں گے۔پھر ہم گھریلو استعمال یعنی کپڑے برتن دھونا اور نہانا وغیرہ تو دور کی بات، پینے کے پانی کو بھی ترسیں گے پھر ہمیں گھر کے لیئے بہت زیادہ رقم کے عوض ٹینکر زلانا پڑیں گے۔پانی کی حفاظت ہم سب کا قومی فرض
ہے۔ دین میں بھی کسی چیز کے بلا ضرورت اور حد سے زیادہ استعمال کو منع کیا گیا ہے۔ یہی میانہ روی اور حکمت ہے۔ ہمارے وطن میں پانی کی طرح بجلی بھی بہت ضائع ہو رہی ہے۔ گلی، گھروں اور مساجد میں بجلی غیر ضروری طور پر ضائع ہو رہی ہے۔ گلی میں لگی سٹریٹ لائٹس صبح کے وقت بھی آن رہتی ہیں۔ گھرو ں میں جن کمروں میں ہم موجود نہیں ہوتے وہاں بھی بلب ، ٹیوب لائٹس ، کمپیوٹر، ٹی وی اور پنکھے کئی کئی گھنٹوں آن رہتے ہیں۔ یہ ہماری بہت بڑی غفلت بلکہ ظلم ہے۔ مسجد میں غیر ضروری پنکھے اور لائٹس آن رہتی ہیں۔ دفاتر میں بھی یہی صورت حال ہے بہت نقصان ہو رہا ہے۔ اس سے ہماری آنے والی زندگی میں بجلی کی دستیابی میں مسائل آسکتے ہیں کیونکہ جنریٹراور یو پی ایس کے اضافی اخراجات برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ لگاتاراور لمبے عرصے کے لیئے ان سیکنڈری آپشن والی چیزوں کا استعمال بہت مہنگا ہونے کی وجہ سے کسی کی بھی برداشت میں نہیں۔
پانی اور بجلی کی طرح گیس بھی بہت بڑی سہولت ہے۔ گھریلو گیس بہت سستی پڑتی ہے۔ ہم مزے سے گھر بیٹھے کھانے پکاتے ہیں چائے بناتے ہیں۔ اگر ہم لکڑیاں اکٹھی کریں یا خریدیںتو وہ ایک جان جوکھوں کا کام ہے۔ افسوس! ہم گیس کو بھی ضائع کر نے میں پیچھے نہیں ۔ پورا پورا دن اور پوری پوری رات غیر ضروری ہیٹرز کا استعمال جاری رہتا ہے۔ چولھے جلائی رکھے جاتے ہیں۔ بہت گیس ضائع ہو رہی ہے۔ یہی گیس اگر محفوظ کی جائے تو باقی گھروں کے کام آسکتی ہے اور آنے والے وقتوں کے لیئے محفوظ رکھی جا سکتی ہے۔ اگر آج ہم اس کی قدر نہیں کریں گے تو ہمیں سلینڈر اور دیگر سیکنڈری آپشنز کی طرف جانا پڑے گا جو کہ بہت مہنگے ہیں۔ چند سو روپے کا بل ادا کر کے مہینے کے لیئے اچھی خاصی گیس استعمال کی جا تی ہے جبکہ سیلنڈر وغیرہ کی صورت میں ہمیں ہفتے کے ہزاروں روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ یہ بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہے ۔یاد رکھیں ! اگر ہم نے ان تین بنیادی اور ضروری وسائل کی قدر نہ کی تو پھرہم بہت مشکل میں پڑ جائیں گے۔ زندگی ڈسڑب ہو جائے گا۔ لڑائی، جھگڑے اور عدم برداشت عام ہو جائیں گے۔ا پنے لیئے سوچیں، اپنے پیاروں کے لیئے سوچیں۔ اپنے ملک کا سوچیں یہی اصل زندگی ہے۔ ورنہ ہم پہلے ہی تاریکیو ں میں ڈوبے ہیں۔غربت میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس گلشنِ پاکستان کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے۔
ہمارے متعلقہ ادارے پانی کی لائنز کا باقاعدگی سے معا ئنہ کریں اور لیک شدہ پھٹے پرانے پائپوں کی مرمت کرائی جائے تا کہ پانی کا ضیاع روکا جا سکے۔ بجلی کی چوری کی روک تھاک کے لیئے اقدامات کیئے جائیں۔ سٹریٹ لائٹس کو غیر ضروری نہ آن رکھا جائے۔ گیس کے ہیٹر زبھی غیر ضروری نہ لگائے جائیں۔ عوام میں وسائل کی اہمیت اور ان کے غلط استعمال کے باعث ہونے والے نقصانات کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے۔ سب کبھی کبھی یہ ضرور سوچ لیا کریں کہ جن کے پاس یہ وسائل نہیں ان کی زندگی کتنی مشکل ہے جو بہت زیادہ رقم ادا کر کے سیکنڈری آپشنز کی مدد سے گزارہ کرتے ہیں جیسے پانی کے ٹینکرزمنگوا کر، دور دراز کے علاقوں سے پانی لاکر، بجلی کی عدم دستیابی کے باعث جنریٹر استعمال کر کے، یو پی ایس استعمال کر کے۔ سردیوں میں گیس کی کمی کی وجہ سے گیس کے سیلنڈر بھروا کر اور لکڑیاں خرید کر۔ یہ سب سوچ لیا کریں۔پاکستان کے کچھ دور دراز کے علاقوں میں پانی کے نہ ہونے کے باعث لوگ مر رہے ہیں، جانور مر رہے ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ چیز ہے۔یہ سوچ کر ضرور وسائل کی قدر کا اندازہ ہو گا۔ دوسروں کی بھلائی اور بقاء کے لیئے کام کرنا بھی صدقہ جاریہ اور بڑی نیکی ہے۔ ہمارے وطن کے اداروں اور لوگوں کو مل کر وسائل کی حفاظت کرنی ہے۔