اول نمبر کس کا ہے؟

حالیہ سروے رپورٹ شاید آپ کی نظروں سے بھی گزری ہوگی جس کے مطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے کرپشن اور گورننس کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ادارہ ہے۔ عدلیہ دوسرے نمبر پر،ٹینڈر اور کنٹریکٹنگ تیسرے نمبر پر جبکہ صحت کا شعبہ چوتھے نمبر پر ہے۔ اگرچہ مجھے حیرت ہوئی کہ کچھ دن قبل صحب کے شعبہ میں کروڑوں کی تعداد میں جعلی ادویہ بنانے کا جو معاملہ رپورٹ ہوا ہے اْس کے مطابق اس شعبہ کو بھی پہلے شعبہ کے ہم پلہ ہی ہونا چاہئے تھا۔چوتھے نمبر پررکھ کر اس شعبہ سے کافی زیادتی کی گئی ہے۔ بہت عرصہ سے ہم بہت سے معاملات میں اول نمبر پر آنا ہی پسند کرتے ہیں۔ شاید دوسرے بہت سے ممالک ان معاملات میں آخری نمبر پر آنا بھی پسند نہ کرتے ہوں لیکن یہ تو اپنی اپنی چوائس اور مرضی کی بات ہے۔ جان بچانے والی ادویات، بچوں کو دی جانے والی ادویات اور دودھ، دل کے امراض جیسی اہم ادویات جعلی ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ہر شعبہ کا مافیا کیا اتنا ہی مضبوط ہوچکا ہے جس کو درست کرنا کسی کے بس کی بھی بات نہیں رہی۔ آگے بڑھنے سے قبل زاں پال سارتر کا خیال آرہا ہے۔ زاں پال سارتر کو اس صدی کا سب سے بڑا فلسفی اور ناول نگار سمجھا جاتا ہے۔باغی ایسا کہ اْسکے ملک فرانس کے الجزائر پر غاصبانہ قبضہ کے خلاف جب وہاں کے عوام نے علمِ بغاوت بلند کیا توسارتر نے الجزائر کے لوگوں کے حق میں آواز بلند کی۔ سارتر کو ایک شخصیت کے طور پر نہیں بلکہ فرانس کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ایک انٹرویو میں جب سارتر سے سوال کیا گیا کہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ کونسا ہے؟ تو سارتر نے خلاف ِ توقع جوا ب دیا کہ اس صدی کا سب سے بڑا مسئلہ نہ بھوک ہے نہ افلاس نہ غربت اور نہ ہی بیماری حتیٰ کہ جہالت بھی موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔1980ء سے قبل یعنی40سال قبل دئیے گئے اس انٹرویو کے اہم ترین نکتہ میں آج کتنی سچائی نظرآتی ہے۔ ہم اور ہمارے ملک پر تو یہ عین صادق آتا ہے۔ہم پولیس سے مراد پولیس اسٹیشن کے اندر بیٹھے ہوئے افراد کو ہی کہتے ہیں لیکن کیا آپ نے ٹریفک پولیس والوں کو نہایت ذمہ دا ر اور ایماندار پایا ہے؟ میں نے اکثر ٹریفک پولیس والوں کو عین شاہراہوں پر مصروف موبائل پایا ہے۔ ون وے اور ٹریفک قوانین کی دھجیاں اْڑاتے مہذب شہری ان کے دائیں بائیں سے نکل کر چلے جاتے ہیں۔ کوئی ان کو جھانسہ دے کر نہیںجارہا ہوتا۔بلکہ یہ موقع ان شہریوں کو خود فراہم کیا جارہا ہوتا ہے۔ کچھ دن قبل اس اعلان سے بڑی خوشی ہوئی کہ اب سے ون وے کے خلاف سختی سے کارروائی کی جائے گی۔2000روپے جرمانہ بھی طے پایاگیا۔ دو دن نہایت جوش وخروش سے اس پر کسی حد تک عمل درآمد بھی ہوا لیکن اس مختصر سی زندگی جس کے دودن آرزو میں کٹ جاتے ہیں اور دو انتظار میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ شاید اس سے زیادہ کی اْمید لگانا بھی عبث ہے۔ اب کوئی بتا ئے کہ آخر کرپشن میں اول نمبر کسے قرار دیا جائے۔ فرسٹ پوزیشن کون حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بہت دنوں سے یہ رواج عام دیکھنے میںآرہا ہے کوئی حادثہ کوئی واقعہ ہوتا ہے تو فوری کوئی قانون بنا دیا جاتا ہے یا حکم دے دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات تو یہ حکم نامہ خبروں تک ہی محدود رہ کر اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔یا اس کی زندگی آرزو کی طرح دو ہی دن کی ہوتی ہے پھر وہی پہلے سے حالات وہی مسائل وہی حادثات اور وہی ہماری عادتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ میں نواب آف کالا باغ کے بارے میں پڑھ رہی تھی۔ اپنی شان کے مطابق گورنری کا عہدہ قبول کرنے والے اس دبنگ گورنر جیسا پھر کوئی نہ گورنر آیا نہ ملک کو ایسی گورنس ہی نصیب ہوئی جو لوگوں کے مزاج اور عادات کو بدل سکتی۔ جو قوانین بنا کر اْسے بھول نہ جاتی بلکہ عمل درآمد کروایاکرتی۔ صوبے کے حالات سے آگاہی کے لئے انہوں نے تمام متعلقہ افسروں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ اپنے محکمے اور علاقے کی تمام تر معلومات براہ راست گھرکے پتہ پر انہیں روانہ کریں۔ ان آنیوالے تمام خطوط کو وہ اپنے ہاتھوں سے کھولتے اور حکم نامہ جاری کیا کرتے اور اس پر ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ رہا کرتے۔ وطن سے محبت رکھنے والے اس بااصول شخص کی شخصیت کی خوبیوں پر الگ سے ایک کالم لکھوں گی۔ بعض اوقات تو اردگرد ماحول دیکھ کرایک عجیب سی اْداسی سی ہونے لگتی ہے ۔ہم کیسے لوگ ہیں ہم دنیا میں اپنی کیا پہچان بنا رہے ہیں؟ زمانے کو اپنا کون سا چہرہ دکھا رہے ہیں۔ تاریخ میں اپنی کون سی یادگاریں چھوڑ رہے ہیں جو آئندہ نسلیں پڑھیں گی۔ سانحہ سیالکوٹ کی مذمت اکثر نے کی ہے۔ لیکن جن کی وجہ سے یہ سانحہ ہوا وہ ہمارا ہی ایک روپ ہیں۔ ہم آئینوں میں اپنے چہرے دیکھ کر بھی خوفزدہ نہیں ہوتے۔ جرم کی سزا ہوتی ہے لیکن اس سزا کو دینے کا اختیار ہمارے پاس نہیں اسکے لئے ادارے کام کر رہے ہیں۔سو جس کا جو کام ہے اْسے کرنے دیجئے۔ اس سانحہ کے بعد وزیراعظم نے اعلان کردیا ہے کہ مذہب کے نام پر ظلم کرنے والوں کو نہیںچھوڑیں گے۔ خدا کرے کہ اس کے بعد وطن عزیز کے ماتھے پرخون کے چھینتے پھینکنے والا کوئی واقعہ نہ ہو۔ واقعی کوئی ایساقانون بنا دیا جائے کہ دوبارہ کوئی قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی جرأت نہ کرسکے۔ معلوم نہیں یہ قانون بھی دوسرے بننے والے قوانین کی طرح دودن کا ہے یا ہمیشہ اس پر عمل ہوگا اور ابھی اس بات کا فیصلہ کرنا بھی باقی ہے کہ کرپشن میں کونسا محکمہ اول نمبر حاصل کرنے کا حقدار ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔