گندم خریداری ھدف پورا نہ ہونےپر ننئے بحران کا خدشھ
شمیم اصغر راؤ
وطن عزیز میں اس وقت صرف کورونا وائرس کا چرچا ہے لیکن اس دوران ٹڈی دل کی یلغار اور حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری کیلئے مقرر کئے گئے ٹارگٹ پورے نہ ہونا اور سرکاری محکموں کی جانب سے اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لئے ہر قسم کی دھونس نئے بحرانوں کو جنم دے رہی ہے اس سال کے اختتام پر جب انشاء اﷲ کورونا وائرس سے نجات کے راستے کھلنا شروع ہونگے تو اس وقت ٹڈی دل کی تباہی اور گندم و آٹے کا بحران سر اٹھانا ہو سکتا ہے اس سال گندم موجود تھی اور بحران نے جنم لے لیا تھا۔ آئندہ سال کے آغاز میں جب سرکاری ٹارگٹ کے مطابق گندم موجود نہ ہوگی تو وہ لوگ جو ایسی صورتحال کا فائدہ اٹھایا کرتے ہیں یقیناً اپنے مفادات کے حصول کے لئے موقع پرستی کا مظاہرہ کریں گے۔ اس سال گندم کی فصل ٹھیک تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ ’’بمپر کراپ‘‘ ثابت ہو گی لیکن عین اس وقت جب گندم پکنے کے قریب پہنچی موسمی حالات سازگار نہ رہے۔ مارچ کے اختتام اور اپریل میں گندم کی فصل کو گرمی کی ضرورت تھی وہ موجود نہ تھی پھر بار بار بارشیں اور متعدد مقامات پر ژالہ باری نے ’’بمپر کراپ‘‘ کا خواب پورا نہ ہونے دیا۔ سرکار نے ’’بمپر کراپ‘‘ کو مدنظر رکھ کر ہی ٹارگٹ طے کئے تھے لیکن پھر ان پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ کورونا وائرس کی وجہ سے عوام نے ذاتی استعمال کے لئے بھی ضرورت سے زیادہ گندم محفوظ کر لی ہے۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ کورونا وائرس نہ جانے کب تک رہتا ہے اور حالات کیسے بنتے ہیں عام آدمی جس کی ضرورت دس من سالانہ تھی اس کی جیب نے اجازت دی تو اس نے پندرہ من خرید کر رکھ لی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کاشتکار جو حکومت کے محکموں پاسکو اور محکمہ زراعت کو گندم فروخت کرنے پر ترجیح دیا کرتے تھے ہر سال سرکار کو گندم کی فروخت اورباردانہ کے حصول کے لئے جو مناظر کو دیکھنے کو ملتے تھے وہ اس سال دیکھنے میں نہ آئے، نہ ہی سرکاری محکموں کے خلاف باردانہ نہ دینے کی شکایات منظر عام پر آئیں۔ کاشتکار کو سرکاری نرخ 1400 روپے من کھیت میں پڑی گندم کے مل گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب کے 9 ڈویژنوں میں سے 16مئی تک صرف تین ڈویژنوں بہاولپور‘ لاہور اور راولپنڈی میں گندم کی خریداری کے لئے مقرر کئے گئے ٹارگٹ پورے ہو سکے۔ پنجاب کے باقی چھ ڈویژنوں میں نہ صرف ٹارگٹ پورا ہونے کی کوئی توقع ہے بلکہ سرکاری اہلکاروں کی جانب سے دھونس دھاندلی نے ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے کہ سرکاری اہلکاروں نے فلور ملوں کی جانب سے خرید کردہ گندم کو زبردستی اٹھا لیا ہے۔ ماضی میں طریقہ کار یہ رہا کہ فلور ملوں کو اجازت ہوتی تھی کہ وہ گندم کا ذخیرہ کر لیں اور فلور ملیں سابقہ سالوں میں اگست تک اپنی ذخیرہ شدہ گندم کا آٹا بنا کر عوام کو فروخت کیا کرتی تھیں۔ اس سال سرکاری اہلکاروں نے پابندی لگا دی کہ پہلے حکومت اپنا ٹارگٹ پورا کرے گی اس کے بعد فلور ملیں سٹاک خرید سکیں گی۔ فلور ملیں اس وقت صرف 72 گھنٹے کا سٹاک اپنے پاس رکھ سکتی ہیں۔ سرکاری ٹارگٹ پورے ہوتے نظر نہیں آتے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ فلور ملیں اپنے پاس سٹاک نہیں رکھ سکیں گی۔ جبکہ حکومت کی جانب سے فلور ملوں کو اگست میں گندم ملنا شروع ہونی ہے سرکاری اہلکاروں نے فلور ملوں سے ان کا سٹاک زبردستی اٹھایا تو فلور ملوں نے پیر کے روز ہڑتال کر دی جنوبی پنجاب میں تقریباً پانچ سو فلور ملیں ہیں ان کے بند ہونے کا مطلب یہ ہے تین چار روز کے بعد آٹا نایاب ہو جائے گا۔ حکومت اور فلور ملز مالکان کے مابین مذاکرات کی کامیابی سے ہی بحران وقتی طورپر ٹل سکتا ہے حکومت فلور ملز مالکان کا مطالبہ تسلیم کرتی ہے تو اس کے اپنے ٹارگٹ پورے کرنے کا ایک ہی ذریعہ رہ جائے گا کہ ٹائیگر فورس ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی کریں۔ ٹائیگر فورس جو بظاہر کورونا وائرس سے لڑنے کے لئے بنائی گئی تھی اس وقت ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی میں مصروف ہے لیکن ماہرین کے خیال میں اس کے باوجود ٹارگٹ پورے نہ ہو سکیں گے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال پنجاب میں ایک کروڑ 62 لاکھ 10ہزار ایکڑ پر گندم کاشت کی گئی تھی اور پیداواری ہدف ایک کروڑ 96 لاکھ 60 ہزار میٹرک ٹن مقرر کیا گیا تھا جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنوں بہاولپور ملتان اور ڈیرہ غازیخان میں گندم کی کاشت کا ہدف 65 لاکھ71 ہزار ایکڑ تھا اور پیداوار 86 لاکھ 74 ہزار میٹرک ٹن کی توقع کی جارہی تھی اوسط پیداوار فی ایکڑ 36 من نکالی گئی اس طرح پورے پنجاب میں گندم کی خریداری کا ہدف 45 لاکھ میٹرک ٹن مقرر کیا گیا تھا۔ جنوبی پنجاب سے 86 لاکھ 74ہزار میٹرک ٹن کی خریداری کے ہدف کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً نصف خریداری جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنوں سے اور نصف سے کچھ زائد باقی 6 ڈویژنوں سے خرید کی جانی تھی۔16مئی تک کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی پنجاب میں صرف بہاولپور میں خریداری کاہدف پورا ہو سکا۔ بہاولپور ڈویژن سے 8 لاکھ 53 ہزار 269 میٹرک ٹن خریدی کی جانی تھی جبکہ 16 مئی تک 8 لاکھ 89 ہزار 124 میٹرک ٹن خریدی جا چکی تھی جو ہدف کا 104 فیصد ہے۔ ملتان ڈویژن سے7لاکھ 34 ہزار 575 میٹرک ٹن کا ہدف تھا جس میں سے 16 مئی تک 5 لاکھ 69 ہزار 967 میٹرک ٹن گندم خریدی جا سکی جو ہدف کا صرف 78 فیصد ہے ۔ڈیرہ غازیخان ڈویژن سے گندم کی خریداری کا ہدف 7 لاکھ 52 ہزار 14 میٹرک ٹن مقرر کیا گیا تھا جن میں سے 16 می تک 5لاکھ 99ہزار 433 میٹرک ٹن یعنی ہدف کا 80 فیصد ممکن ہو سکا۔ پنجاب کے باقی ڈویژنوں کا جائزہ لیاجائے تو لاہور ڈویژن میں ہدف 101 فیصد پورا ہو چکا ہے لیکن لاہور ڈویژن سے صرف 3لاکھ 44ہزار 798 میٹرک ٹن گندم خریدی جانی تھی۔ گوجرانوالہ ڈویژن سے 85 فیصد ساہیوال ڈویژن سے 68 فیصد‘ فیصل آباد ڈویژن سے 66 فیصد‘ سرگودھا ڈویژن سے صرف 49 فیصد ہدف حاصل ہوا ہے۔ راولپنڈی ڈویژن اس لحاظ سے قابل ذکر نہیں کہ وہاں سے صرف 8ہزار 341 میٹرک ٹن گندم خریدی جانی تھی جہاں ہدف سے کچھ زیادہ یعنی 9ہزار 217 میٹرک ٹن گندم خریدی گئی ہے۔ یہ اعدادو شمار چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ابھی تک ٹارگٹ کا صرف 81 فیصد حاصل ہو سکا ہے جو 45 لاکھ میٹرک ٹن کے مقابلے میں 36 لاکھ 47 ہزار 933 میٹرک ٹن ہے۔ محکمہ زراعت پنجاب جتنا بھی زور لگا لے توقع کی جارہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ 40لاکھ میٹرک ٹن گندم خرید کی جا سکے گی اور اس سال فلور ملوں کو بھی وقت سے پہلے یعنی اگست سے قبل ہی کوٹہ شروع ہو جائے گا جس کا مطلب واضح ہے کہ 2021ء شروع ہو گا تو سرکاری گوداموں میں گندم کی کمی کا واویلا شروع ہو جائے گا آئندہ سال بھی وہ ہی مناظر دیکھنے کو مل سکتے ہیں جو اس سال کے آغاز میں گندم اور آٹے کے بارے میں دیکھنے کو ملے تھے حکومت نے فلور ملوں کو اگست تک کی گندم ذخیرہ نہ کرنے دی تو پھر بحرانوں کے لئے تیار رہنا ہو گا اس وقت جنوبی پنجاب میں ٹڈی دل جو تباہی پھیلا رہا ہے حکومت کو اسے بھی سنجیدگی سے لینا ہو گا ورنہ کپاس اور دیگر فصلوں کے زرعی معیشت پر بڑے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔