الوداع ماہِ رمضان

ماہِ رمضان المبارک کی عظمتوں سے کون واقف نہیں، اسکے تشریف لانے پر مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی، زندگی کا انداز ہی تبدیل ہو جاتا ہے، مسجدیں آباد ہو جاتی اور عبادت و تلاوت کی لذت بڑھ جاتی ہے، نیز سحروافطار کی بھی کیا خوب بہاریں ہوتی ہیں، دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں دُنیا کی لاتعداد مساجد کے اندر بیشمار عاشقانِ رسول پورے ماہ رمضان کا نیز ہزاروں عاشقان رسول آخری عشرے کا اعتکاف کرتے ہیں، اعتکاف میں ان کی سنتوں بھری تربیت کی جاتی ہے، انہیں نیکیوں کی رغبت اور گناہو ںسے نفرت دلائی جاتی ہے، خوفِ خدا عزوجل اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خوب جام پینے کو ملتے ہیں۔ بہرحال کیا معتکف اور کیا غیرمعتکف، سبھی ماہِ رمضان کی برکتیں لوٹتے ہیں۔ ماہِ رمضان سے محبت کے اظہار کا ہر ایک کا اپنا انداز ہوتا ہے، رخصت کے ایام قریب آنے پر بالخصوص معتکفین عاشقان رمضان کا دل غم رمضان میں ڈوبنے لگتا ہے! دِل کو یہ غم کھائے جاتا ہے کہ آہ محترم ماہ عنقریب ہم سے وداع ہونیوالا ہے۔ غفلت میں گزارے ہوئے ایامِ رمضان کا خوب صدمہ ہوتا ہے، اپنی عبادتوں کی سستی یاد آتی ہے، دِل پر ایک خوف سا چھا جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ہماری کوتاہیوں کے سبب ہمارا پیارا پیارا رب عزوجل ہم سے ناراض ہو گیا ہو، اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں پر ٹکٹکی بھی لگی ہوتی ہے، خوف ورَجا یعنی ڈر اور اُمید کی ملی جلی کیفیات ہوتی ہیں، کبھی رحمتوں کی اُمید پر دِل کی مرجھائی ہوئی کلی کھل اُٹھتی اور رُخ پر بشاشت (یعنی چہرے پر تازگی) کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں تو کبھی خوفِ خدا عزوجل کا غلبہ ہوتا ہے تو دل غم میں ڈوب جاتا ہے، چہرے پر اُداسی چھا جاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ عاشقانِ رمضان کو یہ احساس بالخصوص تڑپا کر رکھ دیتا ہے کہ رمضان المبارک نے اگرچہ آئندہ سال پھر ضرور آنا ہے مگر نہ جانے ہم زندہ رہیں گے یا نہیں!
رمضان المبارک کے آخری دِنوں یا لمحوں میں ماہِ رمضان سے محبت کی وجہ سے کوئی عاشق رنجیدہ ہو جائے، غم رمضان میں روئے، ماہِ رمضان غفلت میں گزار دینے کے صدمے سے آنسو بہائے تو یہ بھی ایک نہایت عمدہ عمل ہے اور اچھی نیت پر یقینا وہ ثواب کا حقدار ہے۔ بیشک رمضان المبارک میں بیشمار گنہگار بخشے جاتے ہیں مگر ہم نہیں جانتے کہ ہمارے بارے میں کیا فیصلہ ہوا، یقینا جو غافل مسلمان ماہِ رمضان میں مغفرت سے محروم ہوا وہ بہت زیادہ محروم ہوا جیسا کہ ایک فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی ہے کہ ’’اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر رمضان آئے پھر اسکی بخشش سے پہلے ہی گزر جائے‘‘۔
سیدنا شیخ شعیب حریفش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: میرے بھائیو! ماہِ رمضان کے روزوں اور راتوں کے قیام (یعنی راتوں کی عبادت) میں کیوں رغبت نہ کی جائے! اس مبارک مہینے پر کیوں حسرت نہ کی جائے جس میں بندے کے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اس بابرکت مہینے کی جدائی پر کیوں نہ رویا جائے جسکے تشریف لے جانے سے خوب نیکیاں کمانے کا موقع بھی جاتا رہتا ہے۔
’’الوداع ماہِ رمضان‘‘ کے اشعار پڑھنا سننا یقینا بہت عمدہ کام ہے، یہ فرض یا واجب یا سنت نہیں بلکہ صرف مباح و جائز ہے اور مباح کام (یعنی ایسا عمل جس پر ثواب ملے نہ گناہ اس) میں اگر اچھی نیت شامل کر لی جائے تو وہ مستحب و کارف ثواب بن جاتا ہے لہٰذا ’’الوداع ماہِ رمضان‘‘ بھی اچھے مقصد مثلاً گناہوں اور کوتاہیوں پر ندامت اور آئندہ نیکیوں بھرا رمضان گزارنے کی نیت سے پڑھنا سننا کارِ ثواب ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ’’خطبۃ الوداع‘‘ کے متعلق کئے جانے والے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ’’وہ (یعنی ’’الوداع‘‘ کا خطبہ) اپنی ذات میں مباح ہے، ہر مباح نیت حسن (یعنی اچھی نیت سے) مستحب ہو جاتا ہے۔ اور عروض و عوارض خلاف (یعنی شرعی ممنوعات پر مشتمل ہونے) سے مکروہ و حرام تک (جیسے مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ ہونا یا اسے یعنی الوداع کے خطبے کو واجب و ضروری سمجھنا یا عورتوں کا اس طرح پڑھنا کہ ان کی آواز مردوں تک پہنچے یا الوداع کے اشعار کا خلافِ شرع ہونا)۔ (فتاویٰ رضویہ)۔ بہرحال الوداع ماہِ رمضان کے کہنے کا موجودہ انداز نیا ہی سہی مگر شرعاً اس میں حرج نہیں۔ یاد رہے کہ مباح کے کرنے یا نہ کرنے پر ملامت نہیں ہوتی۔