حصول تعلیم کی ایپلیکیشن اور ارطغرل
جب سے ملک میں کورونا آیا ہے جو کام سب سے زیادہ کیا جانے لگا ہے وہ پریس کانفرنس ہے۔آنے والے وقتوں میں اگر عدالت نے کارکردگی پر سوال اٹھایا تو قوی امکان ہے حکومتیں شواہد میں پریس کانفرنسوں کی تعداد بھی لکھ دیں۔میرا حساب کمزور ہے میں گنتی کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کارکردگی میں وفاقی حکومت کو برتری حاصل ہے یا صوبائی حکومت کو۔اسی سلسلے میں وزیر تعلیم سعید غنی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کھولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ہم اسکول کھول دیں تو والدین بچے نہیں بھیجیں گے۔بچوں کی تعلیم متاثر نہ ہو اس لئے آن لائن تعلیم کیلئے ایپ لارہے ہیں۔ اس ایپ کے ذریعے بچے موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر ڈیوائسز پر ڈیجیٹل کلاس میں شریک ہوسکیں گے، یہ ایپ سندھی، اردو اور انگریزی زبان میں ہے۔ایسے لمحے پر میرا دل چاہ رہا تھا کہ باآوازِبلند کہہ دوں ''کیا کہنے''۔خدا بھلا کرے محترم کا خود ہی کہہ دیا کہ اس ایپ سے پچاس فیصد طلبہ بھی مستفید نہیں ہوسکیں گے،ملک میں انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے۔بالکل درست اب سوال یہ ہے کہ جب خود معلوم ہے کہ اس ایپ سے پچاس فیصد افراد بھی مستفید نہ ہوں گے تو پھر اسے بنانے کا مقصد کیا ہے؟اس پر پیسہ کیوں لگایا جارہا ہے کیا اس کے پیچھے بھی کوئی کہانی پوشیدہ ہے؟یا پھر یہ کہہ دیا جائے کہ اب ملک میں تعلیم بھی صرف اشرافیہ کے بچوں کیلئے ہوگی؟جی وہی اشرافیہ جن کے متعلق کپتان کا کہنا ہے کہ ملک میں اشرافیہ نے لاک ڈاؤن لگایا۔اب انہیں کون سمجھائے کہ آپ وزیراعظم ہیں ملک کے فیصلے آپکی مرضی سے ہونے ہیں۔ایک طرف تو ملک میں تعلیمی بحران کا خدشہ ہے جو پاکستانی بچے اسکولوں میں ماسٹر جی کے ڈر سے پڑھتے تھے وہ چھوٹا بھیم،ارطغرل اور نیٹ فلکس چھوڑ کر کیوں تعلیمی ایپ سے فائدہ اٹھائیں گے،جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہیں وہ کیا کریں گے،جن کے پاس لیپ ٹاپ یا اینڈرائڈ نہیں کیا وہ جاہل رہیں گے؟تو دوسری جانب پرائیویٹ اسکولوں کی اکثریت،مدارس،کوچنگ سینٹر و دیگر تعلیمی ادارے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔والدین فیس دینے پر راضی نہیں اور کچھ کے پاس دینے کو کچھ نہیں لیکن مالک مکان کو کرایہ اور بل تو ادا کرنے ہیں،لہذا اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں۔ان تعلیمی اداروں میں سے بڑی تعداد ایسی ہے جو بند ہونے کے قریب ہیں اگر ایسا ہوگیا تو بیروزگاروں کی ایک نئی فوج پیدا ہوگی کیا انکے پیٹ کو بھرنے کیلئے بھی کوئی ایپ بنے گی؟یا نتیجہ خودسوزی اور چوری ڈاکے ہی ہوں گے؟لاک ڈاؤن کے باعث مدارس نے بھی حکومتی احکامات کے تحت طلبہ کو گھر بھیج دیا۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا حفظ یا دیگر شعبوں کے طالب علم جب واپس آئیں گے ان کی پوزیشن کیا ہوگی؟کیا انکا سبق باآسانی وہیں سے شروع ہوجائے گا جہاں چھٹیوں سے قبل چھوڑا تھا؟مدارس سے وابستہ طبقہ بھی اس وقت شدید مسائل کا شکار ہے انکے تقویٰ پر بلا شبہ کسی کو شک نہیں لیکن جب بھوک سے تڑپتا بچہ اپنے والد سے روٹی کی فرمائش کرتا ہے تو باپ سب بھول جاتا ہے۔مدارس میں بھی ایسی ہی کئی افراد ہوں گے اگر انہوں نے اپنا شعبہ چھوڑ کر مزدوری شروع کردی تو ہم روز قیامت اللہ اور اسکے رسول کو کیا منہ دکھائیں گے؟
مساجد میں نمازی کم ہونے کی وجہ سے مساجد کے ساتھ بھی تعاون کم ہوگیاہے۔کیا حکومت کی جانب سے کوئی فنڈ جاری کیا گیا؟مدارس کے بعد حال لے لیجئے پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کا۔ہمارے بچپن میں ہمیں تربیت جاتی تھی ہے استاد کا درجہ والدین والا ہے،استاد ہمارے محسن ہیں لیکن آج کیبل اور انٹرنیٹ کے تعلیم یافتہ اماں ابا اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ تمہارا استاد تو ایک مافیا ہے جو ہم سے پیسے لوٹ کر موج کررہا ہے۔آج کے بچے کو درس دیا جاتا ہے کہ تمہارا استاد کوئی نیکی نہیں کررہا وہ تو تعلیم فروش ہے۔میں ان ناسمجھوں کیلئے کراچی کے 70 فیصد اسکولوں کا احوال پیش کر رہا ہوں۔کراچی کے 70 فیصد اسکولوں کی فیس 1500-1000 روپے تک ہے۔اگر اوسط ایک اسکول میں 300 بچے لگا لیں جو کے ممکن نہیں لیکن چلیں مان لیں سب کا اسکول چل رہا ہے سب کے پاس 300 بچے ہیں۔اسکول کا آڈٹ کر کے دیکھیں تو ایک ماہ میں 75 فیصد طلبہ کی فیس آتی ہے۔یعنی 270 طلبہ کی فیس آئے گی 1200 کے اعتبار سے یہ 33000بنتے ہیں اس میں سے بلڈنگ کا کرایہ نکال دیں ایک لاکھ۔اس میں سے اساتذہ کی تنخواہ بھی نکال دیں 1 لاکھ،ماسی،چوکیدار کی تنخواہ،اسکول میں ضرورت کی اشیا مثال کے طور پر مارکر،چارٹ وغیرہ بھی اسی میں سے آگئے،بجلی،پانی،گیس کے بل بھی اسی میں سے آگئے50000 ان اخراجات کیلئے نکال دیں،اسکول میں اگر جنریٹر ہے تو اس کا خرچ الگ لیکن چلیں ہم نے مان لیا یہ مافیا ہیں پیٹرول پمپ سے پیٹرول مفت لیتے ہوں گے تو بھی ایک اسکول مالک کے پاس 70ہزار تک آمدن ہوتی ہے اب اگر اسکول دو افراد نے مل کر کھولا ہو تو خود اندازہ لگا لیں۔یہاں ضرور یہ سوال اٹھے گا کہ جن اسکولوں کی فیس 10000-3000 ہے انکو کس حصے میں رکھا جائے تو عزیز ہم وطنوں ایسے اسکولوں کو آپ اب بھی فیس دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے ورنہ جرمانے کی فیس بھی ادا کرنا ہوگی،لیکن سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا عقل مندی نہیں۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ تمام کام ایس او پیز کے تحت ہوسکتے ہیں تو اسکول اور مدارس کیوں نہیں کھل سکتے؟گلیوں میں گھوم کر دیکھ لیں اسکول اور مدرسے نہ جانے والا بچہ گھر پر قید ہے یا گلیوں میں پتنگ بازی و بلے بازی میں مشغول ہے کیا کورونا علم دشمن وائرس ہے؟جو ان طلبہ کو گلیوں میں تو کچھ نہیں کہے گا لیکن مدرسے و اسکول میں انکا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ہمیں ہٹ دھرمی سے ہٹ کر سمجھنا ہوگا کہ یہ قاری صاحب،یہ استاد جی،ماسٹر صاحب ہی ہمارے بچوں کے محسن ہیں۔انکے متعلق ایک غلط پروپیگنڈا آنے والی نسلوں میں بگاڑ کے سوا کچھ پیدا نہ کرے گا۔ میری حکومت سے یہ بھی درخواست ہے کہ ایپ ضرور بنائیں لیکن یہ بات بھی سمجھیں کہ یہ ادارے بند ہوگئے تو ملک میں بڑا بحران آجائے گا۔خیر سمجھنا ایک بہت مشکل کام ہوتا ہے۔جانے دیں شاید اس قوم اور انکے منتخب نمائندوں سے نہ ہوسکے۔