21ماں تجھے ڈھونڈوں کہاں؟
مئی2013ء کو میں نے اپنی والدہ کو آخری بار دیکھا تھا جب ان کی سانسیں ان کے محبت بھرے خمیر سے نکل رہی تھیں، میں بآواز بلند درود تاج ان کے کان کے پاس پڑھ رہی تھی جب میں نے پڑھ کے ان کو کہا الوداع ماںجی! ساتھ ہی ان کی سانسیں پرواز کرگئیں، ڈاکٹرز نے ہم سب کو ان کے پاس سے ہٹا دیا ان کے چہرے پہ سفید چادر ڈال دی تو اس لمحے میں مجھے احساس ہوا کہ ماں جی ہمیں سفید چادر کیوں نہیں اوڑھنے دیا کرتی تھیں۔ ہے کوئی ماں کی محبت کا نعم البدل۔
وقت کے ہاتھوں مجبور ہو گئی،اک بیٹی اپنی ماں سے دور ہو گئی،التجا کرتی رہی اک بار ملا دو،دور سے ہی پر مجھے ماں دکھا دو،مولا تیرے دربار میں واویلا نہ کروں گی،بچھڑی ہوئی ماں سے اک بات کہوں گی،بات بڑھ گئی تو مجھے روکنا نہیں،کچھ کہنا ہے ماں سے مجھے ٹوکنا نہیں،تھک جاتی ہوں تو گود میں سلاتا نہیں کوئی،روتی ہوں تو سینے سے لگاتا نہیں کوئی،ڈرتی ہوں تو تکیے سے لپٹ جاتی ہوں اکیلی،میری جان کہہ کر پاس بلاتا نہیں کوئی،خواہشوں کا طاق بھی خالی پڑا ہے کب سے،روٹھوں بھی تو اب مناتا نہیں کوئی،سب کام وہی ہیں گھر کے فرق اتنا پڑا ہے،کتنی کمزور ہو گئی ہوں بتاتا نہیں کوئی،پیاسی ہی سو جاتی ہوں اب میں تھک کے اکثر،گرم دودھ کا گلاس پلاتا نہیں کوئی،سر درد سے پھٹ رہا ہو بخار میں پھر بھی،گود میں سر رکھے سہلاتا نہیں کوئی۔ آنکھوں میں انگارے بھر جاتے ہیں اکثر،ایسے میں مجھے یاد تیری آتی ہے ۔ ماں کو اللہ تعالیٰ نے ایسا دل دیاہے کہ جہاں وہ اپنی اولاد کے ہر غم کو چھپالیتی ہے، مائوں کا ہمیشہ کہنا ہوتاہے، ’’رب راکھا‘‘ ’’اللہ کی امان‘‘ سدا سکھی رہو میرے بچو‘‘ اللہ نظربد سے بچائے‘‘ میں ہوں ناں میری جان تو پریشان کیوں ہوتے ہو‘‘ میں واری صدقے تمہاری بلائیں میرے سر آئیں‘‘ ’’اے اللہ میرے بچے کو میری عمر لگادے‘‘ اور قارئین یہ دعائیں ہرماں کی زبان پہ ہوتی ہیں۔ماں تپتی دھوپ میں سایہ دار شجر ہے، وہ جلتے کوئلوں پہ برف کی ٹھنڈک ہے، وہ میٹھے جذبوں کا جھرنا ہے، اس کا چہرہ چاند چہرہ ہے ،اس کی باتیں نرمل ہیں اوراس کی گرم روٹی میں محبت کی خوشبو ہے۔ وہ جب سب سے چھپا کر دوپٹے کے کونے میں گڑ کا ٹکڑا باندھتی ہے اور پھر بچے کو گود میں بٹھا کر اسے کھول کے کھلاتی ہے تو اسکی ممتا سکون پاتی ہے۔ اپنے حصے کی روٹی، اپنے حصے کی خوشیاں اوراپنے حصے کے خوابوں کی تعبیر، وہ بنا سوچے سمجھے بچوں کی قسمت میں لکھنے کیلئے راتوں کو اللہ کے حضور گڑگڑاتی ہے، بچے کو مارتی ہے تو اسے سینے سے لگاکر رونے لگتی ہے۔مائیں تو تن تنہا اولاد کیلئے زندگی کی چکی میں پستی ہیں کبھی بچوں سے صلہ بھی نہیں مانگتیں۔
پسینے سے شرابورماں خوشبوئوں کا ایک جہان ہوتی ہے وہ کیچڑ سے لت پت بچے کو محبت سے گود میں بھرلیتی ہے۔ مگر کوتاہیاں ہمیشہ اولاد سے ہوتی ہیں۔ کیا ہم اپنی ماںکو وہ مقام دے سکتے ہیں جو مقام وہ ہمیں ہماری بے چارگی اور بے بستی میں دیتی ہے؟ آج تک کسی ماں نے اپنے معذور بچوں کوکسی معذوروں کی فائونڈیشن میں جمع کرایاہے؟جبکہ آج بزرگوں سے کئی فائونڈیشن اور ہائوسز بھرے پڑے ہیں ۔جہاں پہ ماں باپ کی منتظر آنکھیں بچوں کا راستہ دیکھتی ہیں انہی بچوں کا جن کی انگلی پکڑ کر انہی راستوں پہ چلنا سکھایا تھا ۔ آج وہ انہی رستوں پہ چل کے ماں باپ کو یہاں چھوڑجاتے ہیں۔ میں جب بھی اللہ کا وہ فرمان پڑھتی ہوں کہ اے موسیٰ دھیان سے آج تمہارے پیچھے دعا کرنے والی ماں نہیں ہے تو آنکھیں زارو قطار روتی ہیں۔ وہ تو ایک پیغمبر تھے میرے ساتھیو ہم تو خاک کا ذرہ بھی نہیں۔ آج میری ماں کی آنکھوںکا انتظار تو ختم ہے مگر ان کی آواز میرے کانوںمیں رس گھولتی ہے۔انکے پائوں چومنا ان سے لاڈ ہی لاڈ میں اپنی خواہش منوا لینا بہت یاد آتاہے، ماں تو ہمیشہ جان جانتی ہے کہ اس کا بچہ اس سے جو محبت جتا رہاہے تو ضرور کوئی فرمائش پوری کروانا چاہتا ہے۔ پھر وہ اپنے گریبان سے پھولدار رومال نکالتی ہے اس کی گرہیں کھولتی ہے اور پیسے نکال کے بچے کے ہاتھ پہ رکھ دیتی، یہ لے میری جان تیرے لیے ہی رکھے تھے ،جالے آ اپنی من پسند چیز۔ ماں تو جب ہانڈی پکاتی ہے تو بیٹی کو سو چیزیں سمجھا دیتی ہے، اندازے سے نمک مرچ ڈالنا، آنچ کا خیال رکھنا، بستر کی چادر پہ سلوٹ نہ پڑنے دینا ہی تو زندگی کی وہ حقیقتیں ہیں جو ماں سکھا گئی، کنگھی، چوٹی،جھاڑو اور پوچا ان میں زندگی کے تمام اسرار موجود ہیں جوماں نے سکھائے، مگر آج بھی لگتاہے جیسے ہم بہت کچھ سیکھنا بھول گئے۔ ماں تونے تو ہمیں سب سمجھا دیا تھا کہ ،ایسا ہو تو، ایساکرنا ،اورویسا ہوتو ایسانہ کرنا۔ مگر آج تو نہیں ہے توسب ایسااور ویسا بھول گیاہے۔