بے باک رہبر صحافت

ستائیسویں رمضان المبارک 2014ء کو محترم ڈاکٹر مجید نظامی اللہ کے حضور پہنچ گئے۔
مجید نظامی نے صحافت کا آغاز تو اپنے زمانہ طالب علمی سے کر دیا تھا اور پھر بانی نوائے وقت حمید نظامی کی وفات کے بعد 1962ء میں ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں جنہیں 52سال تک انتہائی جانفشانی کے ساتھ انجام دیا۔ سول حکمران ہو یا آمر جناب مجید نظامی کسی کے سامنے کبھی نہیں جھکے۔ مجید نظامی کی ساری زندگی جمہوریت کے فروغ اور استحکام کی جدوجہد میں گزری۔ انہوں نے آمریت کے خلاف طویل اور ببانگ دہل جنگ لڑی۔ نظریہ پاکستان سے ان کی وابستگی سب پر عیاں تھی۔ مجید نظامی صحافت کے درخشاں ستارے تھے جن پر پوری صحافتی برادری کو فخر ہے۔مسئلہ کشمیر ہو یا بھارت سے پانی کی تقسیم کا مسئلہ، معاملہ دہشت گردی کا ہو یا بھارتی ثقافتی یلغار کا یا انڈیا سے یکطرفہ تجارتی تعلقات کا۔ جناب مجید نظامی ہمیشہ اپنی قوم کے جوانوں کو پاکستان کے اس منافق ترین دشمن کی ریشہ دوانیاں اور سازشوں سے ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔ جناب مجید نظامی نصف صدی سے زائد عرصہ تک نوائے وقت کی ادارت بطریق احسن انجام دیتے رہے۔ قومی معاملات میں ان کی وطن سے بے مثل محبت وارفتگی عشق کے اعلیٰ ترین درجہ تک جا پہنچی تھی۔ نوائے وقت کے اداریے، تجزیاتی مضامین اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ ان بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کی بدولت جناب مجید نظامی ایک ایسی ممتاز قومی شخصیت بن گئے تھے کہ انہیں اس ملک خداداد کے کروڑوں عوام میں سے یکے از صاحب تقلید شخصیت قرار دیا جائے تو یہ نہ صرف ان کی قومی و ملی جملہ صفات کا اعتراف ہو گا بلکہ ہماری نوجوان نسل جناب مجید نظامی کے مثالی جذبہ حب الوطنی کی پیروی کرتے ہوئے وطن عزیز کو حقیقی معنوںمیں ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔
27 رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں رب ذوالجلال کی طرف سے ان کی قومی و ملّی خدمات کے سلسلہ میں خاص عنایت تھیں جو آپ کے نصیب میں ہوئیں۔ قابلِ قدر کارنامے سعادتیں بڑے نصیب والوں کو ہی ملا کرتی ہیں۔ہم ان کی بلندی درجات کے لئے ہر لمحہ دعا گو ہیں۔ آپ حق گوئی کیلئے روشنی کا مینار ہیں۔ محبانِ وطن کو آپ کی کمی قدم قدم پر محسوس ہوتی رہے گی۔ان کے نقشِ قدم ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔ ان کے بتائے ہوئے راہنما اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی حقیقی منزل یعنی پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنا سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ رب کائنات انہیں فردوسِ بریں عطا کرے اور آپ کی لحد کو مثلِ باغ فردوس بنائے۔ آمین
نیا مالی بجٹ اور زرعی شعبہ کی ترجیحات
نئے مالی بجٹ برائے سال 2020-21 کی آمد آمد ہے ہر شعبے کے تجزیہ نگاروں ، اہم ملکی تنظیموں اور ماہرین کی جانب سے اپنے اپنے شعبہ کے حوالے سے سفارشات دینے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو بھی کورونا کی مہلک وباء کے باعث بڑھتی ہوئی بے روزگاری ، غربت اور فاقہ کشی پر قابو پانے کیلئے اپنے غذائی وسائل کے تحفظ کو یقینی بنانے پر آئندہ سال کے ترقیاتی منصوبوں میں اولین ترجیح دینا ہوگی ، بالخصوص ایسی صورتحال میں کی کہ گزشتہ سال کے اقتصادی سروے کے مطابق زرعی شعبہ کی شرح نمو 3.8فیصد کے مقررہ ہدف سے گر کر 0.85 فیصد تک تنزلی کا شکار ہوئی۔گزشتہ روز اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں شعبہ زراعت کی ترقی اور کسان کی آسودہ حالی کیلئے اربوں روپے کے زرعی پیکج کا اعلان کیا گیا ہے جس کے مطابق آئندہ مالی سال میں کھادوں پر 37ارب روپے کی سبسڈی ، زرعی قرضوں کے مارک اپ میں کمی کیلئے 88ارب روپے کی زر تلافی، کپاس کے بیجوں اور سفید مکھی کو تلف کرنے کی پیسٹی سائیڈز پر 31ارب روپے سبسڈی اور ٹریکٹروں پر عائد سیلز ٹیکس کی چھوٹ کیلئے 25ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا گیا ہے جو بلاشبہ موجودہ حکومت کا کسان اور شعبہ زراعت کی خوشحالی کیلئے بڑا قابلِ تحسین اقدام ہے ۔تاہم زرعی ماہرین اور کسان تنظیموں کا مطالبہ یہ ہے کہ زرعی پیداوار کو سنبھالا دینے کیلئے ایک آدھ سال کیلئے ایسا عبوری اقدام کافی نہیں۔ ہمیں ترقیاتی منصوبوں میں شعبہ زراعت کو نظر انداز کرنے کی روش ترک کر کے اس شعبہ کو اولین ترجیحات میں اہمیت دلوانا ہو گی۔ ہمیں پیداواری لاگت کم کر کے بھارت، چین، ترکی، ملائیشیا، برازیل اور دیگر بیشتر ممالک کی طرح ہر سال زرعی مداخل پر باقاعدگی سے سبسڈی دینا ہو گی۔ ہمیں اپنے کسان کے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے بھارت جیسے ازلی دشمن کی زرعی اجناس کو درآمد کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے زرعی تحقیق کے اداروں کو زیادہ وسائل فراہم کرنے کے علاوہ زرعی تحقیق کو سرکاری و نجی شعبے کے مابین اشتراک کو مزید مربوط بنانا ہو گا۔ ہمیں جدید زرعی ٹیکنالوجی کو کسان کے کھیت تک موثر انداز میں منتقل کرنے کیلئے ضلعی سطح پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے بہتر بنانا ہو گا۔ ہمیں افغانستان سمیت زرعی اجناس کی بھارت کے ہاتھوں کھوئی ہوئی 40 فیصد بیرون ممالک منڈیوں کو دوبارہ حاصل کرنے اور عالمی مارکیٹ میں بہتر مقام بحال اور برقرار رکھنے کے اقدامات کرنا ہونگے۔ ہمیں زرخیز زرعی رقبوں پر اندھا دھند ہائوسنگ و صنعتی تعمیرات کو روکنے کیلئے جلد از جلد قانون سازی کر کے انہیں بنجر و بے آباد رقبوں تک محدود کرنا ہو گا۔ ہمیں آبپاشی کیلئے پانی کی کمی کو دور کرنے اور سیلابوں کی شدید تباہی سے بچنے کیلئے ، پن بجلی سے سستی بجلی پیدا کرنے، اور سمندر برد ہونے والے کثیر میٹھے پانی کو محفوظ بنانے کیلئے بڑے چھوٹے ڈیمز کی جنگی بنیادوں پر تعمیر کو اہمیت دینا ہو گی۔ پانی کی تیزی سے واقع ہونے والی کمی دہشت گردی سے زیادہ ہولناک ہو سکتی ہے۔ ہمیں زیر زمین پانی کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی سطح کو سنبھالا دینے کیلئے بارشوں کے پانی کو محفوظ بنانے کیلئے کثرت سے جھیلیں، تالاب اور منی ڈیمز بنانا ہونگے۔ ہمیں چین جیسے عظیم دوست ملک سے اڑھائی تا تین کروڑ ایکڑ سیم تھور زدہ رقبہ کی بحالی، سمندری اور زیر زمین کھارے پانی کو آبپاشی کیلئے میٹھا بنانے کی ٹیکنالوجی اور چھوٹے کسانوں کی خوشحالی کیلئے چین کی تین ایکڑ مشترکہ کھیتی باڑی کے ماڈل کو اختیار کرنے میں معاونت حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں زرعی فصلوں اور دودھ کی 30 تا 40 فیصد پیداوار کے ضیاع کو کم کرنے کیلئے برازیل کے زیروھنگر پروگرام اور چینی و ملائیشین ٹیکنالوجی سے بھر پور استفادہ کرنا ہو گا۔ہمیں تصدیق شدہ بیج کے استعمال کو ترقی یافتہ اور بیشتر ترقی پذیر ممالک کے تناسب سے بہتر بنانے کے اقدامات کرنے کیساتھ غیر معیاری و ناقص بیج کی فروخت پر سخت قوانین لاگو کر کے قابو پانا ہو گا۔ ہمیں کسان کو ان کی زرعی پیداوار کا معقول معاوضہ دلانے کیلئے چین، بھارت، ترکی، برازیل و دیگر ممالک کی طرح متعلقہ صنعتوں اور بنکوں کا کنشوزشیم بنا کر زرعی اجناس کی مارکیٹنگ کا موثر نظام قائم کرنا ہو گا۔ ہمیں چھوٹے کسان کو خوشحال بنانے کیلئے اسے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی غرض سے کھیتی باڑی کے علاوہ لائیوسٹاک، پولٹری، فشریز اور چھوٹی گھریلو صنعتوں کے قیام کیلئے عملی و فنی تربیت کے ساتھ بلاسود یا آسان شرائط کے زیادہ سے زیادہ قرضے فراہم کرنا ہوں گے۔ ہمیں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق فصلوں کی نئی زوننگ تشکیل دیکر اس پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا ہمیں کپاس کے رقبہ پر گنے، مکئی اور چاول کی بڑھتی ہوئی کاشت پر قابو پانا ہو گا۔ ہمیں زرعی اجناس کی مقامی ٹریڈنگ و ایکسپورٹ میں مڈل مین پر انحصار کم کرنا ہو گا۔ ہمیں سیڈ و پیسٹی سائیڈز ایکٹ پوری طرح نافذ نہ ہو سکنے میں صوبائی و وفاقی حکومتوں کے مابین تضادات کو فی الفور ختم کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔
٭…٭٭…٭